کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 262
مشیر بھی رہے۔ مذکورہ تاریخی حوالوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ قبولِ اسلام کے باوجود آتش پرستی کے جراثیم ان کے اندر موجود رہے اور ظلِّ الٰہی کے سایۂ عاطفت میں رہنے کی وجہ سے ان کو مسلمانوں کے اندر اپنے مشرکانہ خیالات پھیلانے کے مواقع بھی میسر آگئے، جن میں ایک مشرکانہ اور آتش پرستانہ رسم چراغاں اور آتش بازی ہے۔ پہلے پہل شبِ برات کے موقع پر ہی چراغاں بھی ہوتا تھا اور آتش بازی بھی، پھر چراغاں کادائرہ تو بہت پھیل گیا اور ہر اہم موقع پر چراغاں کا اہتمام نہایت ضروری قرار پایا حتی کہ اب یہ شادیوں کا بھی ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔ لیکن آتش بازی ابھی تک زیادہ تر شبِ برا ت ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس رات کو جس شدت اور تسلسل کے ساتھ آتش بازی کی جاتی ہے، وہ الامان والحفیظ کی مصداق ہے، پھر شادیوں پر حکومت کی طرف سے پابندی سے پہلے شادی کے موقع پر بھی اس شیطانی رسم کا سلسلہ بڑا عام ہوگیا تھا۔جس میں پابندی کے باوجود کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ھَدَاھُمُ اللّٰہُ تعالٰی۔ بہرحال مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ خوشی اور مسرت کے موقع پر کسی بھی انداز سے چراغاں یا آتش بازی کا اہتمام کرنا، آتش پرستی کا ایک حصہ ہے، اس لیے کسی بھی موقع پر ان چیزوں کا اہتمام کرنا سراسر حرام اور ناجائز ہے، وہ ’’عیدِ میلاد‘‘ کا موقع ہو یا شادی بیاہ کا یا کسی اور تقریبِ مسرت کا، کسی بھی موقع پر چراغاں یا آتش بازی کا جواز نہیں ہے۔