کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 261
جواز کی کوئی صورت نہیں۔‘‘[1] تقریباً یہی بات ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفّٰی1014ھ) نے بھی لکھی ہے، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں: ’وَأَوَّلُ حُدُوثِ الْوَقِیدِ مِنَ الْبَرَامَکَۃِ وَکَانُوا عَبَدَۃَ النَّارِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا أَدْخَلُوا فِي الإِْسْلَامِ، مَا یُمَوِّھُونَ أَنَّہٗ مِنْ سُنَنِ الدِّینِ وَمَقْصُودُھُمْ عِبَادَۃُ النِّیرَانِ حَیْثُ رَکَعُوا وَسَجَدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ إِلٰی تِلْکَ النِّیرَانِ، وَلَمْ یَأْتِ فِي الشَّرْعِ اسْتِحْبَابُ زِیَادَۃِ الْوَقِیدِ عَلَی الْحَاجَۃِ فِي مَوْضِعٍ‘ ’’سب سے پہلے جنھوں نے چراغاں کیا، وہ برامکہ تھے، یہ آگ کے پجاری تھے، جب یہ مسلمان ہوگئے تو انھوں نے آتش پرستی کی کئی چیزوں کو اسلام میں داخل کرکے یہ باور کرایا کہ یہ بھی دین اسلام کے طریقے ہیں اور مقصدان کا آگ کی پوجا تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ان چراغوں کی طرف رکوع وسجود کرتے تھے۔ اور شریعت میں کسی بھی جگہ، ضرورت سے زیادہ روشنی کرنے کا استحباب وارد نہیں ہے…۔‘‘[2] برامکہ، یہ ایک مجوسی خاندان تھا، یہ خاندان پڑھا لکھا اور علم و فضل کا مالک تھا، جس کی وجہ سے اس خاندان کے بہت سے لوگوں کو عباسی خلفاء، (ہارون الرشید اور مامون و معتصم وغیرہ) کے درباروں میں خاص مقام حاصل تھا بلکہ بعض تو ان خلفاء کے وزیرو
[1] ماثبت بالسنۃ في أیام السنۃ کا اردو ترجمہ ’’مومن کے ماہ و سال‘‘ صفحہ: 177,176، مطبوعہ دارالاشاعت، کراچی، 1966ء۔ [2] مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، باب قیام شہر رمضان: 198/3،طبع مکتبہ امدادیہ، ملتان۔