کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 260
کرنے کی رسم ڈال لی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہم بھی کسی سیٹھ ساہوکار سے کم نہیں، جس طرح وہ روشنی کرتے ہیں ویسی ہی بلکہ اس سے اچھی ہم کرتے ہیں۔ بعض متأخرین علماء کا بیان ہے کہ مخصوص راتوں میں بکثرت روشنی کرنا، بدعتِ شنیعہ (نکمی بدعت) ہے، اس لیے کہ ضرورت سے زیادہ روشنی کرنے کے مستحب ہونے کا شریعت میں کوئی حکم نہیں ہے۔ علی بن ابراہیم کا بیان ہے کہ چراغاں اور روشنی کرنے کی ابتدا برمکیوں نے کی ہے جو نسلاً و اعتقادًاآتش پرست تھے اور ظاہری اسلام لانے کے بعد بھی انھوں نے اپنے وہمی و خیالی امور کو اسلام میں جاری رکھنے کی حتی الامکان کوششیں کیں کیونکہ اعتقادی طورپر ان کو قدیم رواج کے درست ہونے کا یقین تھا، نیز اسلام میں قدیم رواج و رسوم کو باقی رکھنے میں ان کی مصلحت یہ تھی کہ اسلام کے پردے میں چراغ جلا کر اس کو سجدہ کرتے ہوئے آتش پرستی کی روح کو باقی رکھیں۔ اور طرہ یہ ہے کہ جاہل ائمۂ مساجد نے چراغ و روشنی اور نمازِ رغائب کی آڑ میں لوگوں کو جمع کرنے کا طریقہ بنالیا ہے تاکہ اپنی قیادت و سرداری جتا کر دولت سمیٹ سکیں، ساتھ ہی قصہ خوان مجالس میں خوب قصے بیان کرسکیں اور غریبوں سے روپے لیتے رہیں۔ اور حقیقت امر یہ ہے کہ ان تمام منکرات کے بُطلان و اِبطال کے لیے اللہ نے ائمۂ ہدیٰ پیدا کیے کہ منکرات ناپید ہوجائیں۔ ان ائمۂ ہدیٰ میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے دوسری صدی ہجری میں ممالک عرب و شام کے اندر منکرات کو اچھی طرح ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’’تذکرہ‘‘میں علامہ طرطوسی نے لکھا ہے کہ ختم قرآن کی شب میں اجتماع، منبروں کا قیام، عورتوں اور مردوں کا میل جول اورکھیل کود وغیرہ میں باہمی اختلاط اور زمانۂ حال کے اعمال و کردارِ ناگفتہ بہ، یہ سب کے سب کام کوئی اصلیت نہیں رکھتے اور ان کے