کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 258
لاکھوں نہیں کروڑوں روپے چند دنوں میں خرچ کردیے جاتے ہیں اور اگر دیگر اسلامی ملکوں کو بھی، جہاں یہ رسوماتِ بدعیہ اسی انداز سے ادا کی جاتی ہیں، شامل کر لیا جائے تو یہ رقم کروڑوں سے تجاوز کرکے اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اسے عوام کی نظروں میں ایک کارِخیر اور باعثِ اجروثواب کام باور کرادیا گیا ہے، تب ہی تو عوام اپنے خون پسینے کی کمائی اس طرح اس پر صرف کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، وہ اپنے پیغمبر کا اسوۂ حسنہ تو اپنانے اور اپنی زندگی کو اس سانچے میں ڈھالنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن جب وارثانِ منبرِ رسول کی طرف سے ان کے ذہنوں میں یہ راسخ کردیا جائے کہ محبتِ رسول کا یہ طریقہ ہی نجات کے لیے کافی ہے تو پھر ان کے لیے کیا ضروری ہے کہ وہ اسوۂ حسنہ کو اپنا کر اپنے کاروبار کو صحیح کریں؟ اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کریں؟ اپنے معاملات اور معمولات کو درست کریں، اپنی زندگی کے رہن سہن اور طور اطوار کو صحیح کریں؟ کیا ان کے لیے یہ ’’نعم البدل‘‘ صحیح نہیں کہ وہ ان ساری ’’کھکھیڑوں‘‘ کی بجائے ’’میلاد‘‘ کے موقع پرچراغاں کرلیں یا جلوسِ میلاد میں شرکت کرلیں یا کروڑوں اوراربوں کے اس اسراف میں اپنا حصہ ڈال دیں اور پھر سارا سال اسوۂ حسنہ سے بے نیاز رہ کر من مانیاں کرتے رہیں۔ چنانچہ عوام نے اپنے مذہبی رہنماؤں کی شہ پر یہی ’’نعم البدل‘‘ مستقل طورپر اختیار کرلیا ہے اور وہ ’’میلاد‘‘ کے موقع پر نہایت ذوق و شوق سے اور بڑی وارفتگی سے چراغاں کرتے ہیں اوراس بے فائدہ کام پر کروڑوں اور اربوں روپے ہر سال برباد کردیتے ہیں۔ لیکن آئیے! ذرا دیکھیے! کہ ’’چراغاں‘‘ کا بڑھتا ہوا یہ سلسلہ ’’کارِ خیر‘‘ ہے یا ’’کارِغیر‘‘ ہے؟ یہ فرزندانِ توحید کا کام ہے یا اہل شرک کا امتیاز ہے؟