کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 254
ہندومت ایک مذہب ہے، اس کے ماننے والوں کی ہر چیز اس کے تابع ہے، وہ اپنے مردوں کو دفناتے نہیں، جلاتے ہیں، وہ اپنی لڑکیوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیتے، بلکہ شادی کے موقع پر دان (جہیز) دیتے ہیں۔ وعلیٰ ھذا القیاس ان کی ثقافت کے اور مظاہر ہیں، وہ محض ثقافت نہیں، ان کے مذہب اور نظریۂ حیات کا حصہ ہیں۔ حیا باختگی مغربی ثقافت ہے جس کے بہت سے مظاہر ہیں، جیسے بے پردگی و عریانی، مردو زن کا بے باکانہ و بے حجابانہ اختلاط بلکہ برسرعام چوکوں اور سڑکوں پر بوس و کنار، شراب نوشی، جوڑوں کا باہم رقص و سرود، نکاح کے بغیر مردوزن کا باہم جنسی تعلق وغیرہ یہ ان کی اس ثقافت کا حصہ ہیں جو انھوں نے مذہب سے آزاد ہوکر اختیار کی ہے۔ اب یہی ان کا مذہب اور نظریۂ حیات ہے اور یہی ان کی ثقافت اور کلچر ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ آج کل جس کو ثقافت یا کلچرکہا جاتا ہے، وہ کسی قوم کے مذہبی تصورات اورنظریۂ حیات سے الگ نہیں ہوتا بلکہ اس کے نظریۂ حیات ہی کے اجزائے ترکیبی سے تشکیل پاتا ہے۔ اس اعتبار سے مسلمانوں کی ثقافت ہرگز وہ نہیں ہوسکتی جس کے اجزائے ترکیبی اس کے اسلامی تصورات کے بجائے غیروں کے تصورات، یا غیروں کی نقالی و مشابہت پر مبنی یا اسلام کے بیان کردہ اصولوں سے متصادم ہوں۔ ’’میلاد‘‘ کے اجزائے ترکیبی کا اسلام کے تصورات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے سب اجزاء غیروں کی نقالی اور مشابہت پر مبنی ہیں جن سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے، جیسے: ٭’’یوم‘‘ منانا ٭چراغاں کرنا ٭ جلوس نکالنا ٭بھنگڑے، لڈیاں ڈالنا