کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 253
سبحان اللہ! یہ ’’دلیل‘‘ بھی خوب ہے۔ گویا علاقائی طور اطوار بھی، جس کو ثقافت کا نام دیا گیا ہے، اب ’’شرعی دلیل‘‘ بن گئے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض علاقوں میں جو ’’ونی‘‘ یا کاروکاری کی رسمیں ہیں جن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیاجاتا رہتا ہے، وہ بھی علاقائی ثقافت کے نام پر جائز ہی ہونی چاہئیں؟مختلف علاقوں میں جو اپنے اپنے علاقوں کے حساب سے مختلف قسم کے ’’ڈانس‘‘ رائج ہیں، جیسے ’’خٹک ڈانس‘‘ ’’لُڈی‘‘ ’’بھنگڑا‘‘ وغیرہ یہ بھی ثقافتی مظاہر ہیں، ان کو بھی دین و شریعت کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، بس علاقائی ثقافت کی وجہ سے ان کا جواز تسلیم کر لینا چاہیے۔ اسی طرح ہماری شادی بیاہ کی بہت سی رسومات ہندوئوں کی نقالی یا اسلامی تہذیب سے نفرت و بیگانگی پر مبنی ہیں، جیسے مہندی کی رسم ہے، بینڈ باجوں کا رواج ہے، آتش بازی کا سلسلہ ہے، مردوں اور عورتوں کا بے باکانہ اختلاط اوران کی ویڈیو فلم سازی ہے، عورتوں کا پردے سے یکسر بے نیاز ہوکر برسرِ عام اپنے حسن و جمال، اپنی آرائش و زیبائش اوراپنے لباس اور زیورات کی نمائش کرنا ہے، انواع و اقسام کے کھانوں کی صورت میں اسراف و تبذیر کا شیطانی سلسلہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب گویا ثقافتی مظاہر ہیں جو قابل نکیر نہیں بلکہ مذکورہ دلیل کی رو سے جائز قرار پائیں گے۔ سچ ہے: گر ہمیں مکتب و ہمیں ملاں کار طفلاں تمام خواہد شد اس لیے ہم عرض کریں گے کہ کسی ملک یا قوم کی ثقافت کوئی چیز نہیں، اصل چیز اس قوم کا مذہب اور نظریہ ہے، ہر چیز اس کے مذہبی نظریات کے تابع ہوتی ہے۔