کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 252
7 اسی طرح ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام میں جو اچھا کام رائج کرتا ہے اسے اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملتا رہتا ہے۔ حدیث میں ہے: مَنْ سَنَّ فِي الإِْسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً…الخ‘ ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا… الخ‘‘[1] تو میلاد النبی بھی اچھا طریقہ ہے لہٰذا ہمیں اسے منانا چاہیے۔ ازالہ: اس کا مفصل جواب بھی کتاب کے مقدمہ میں گزر چکا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔ خود ساختہ ثقافت کے حوالے سے جواز؟ کیا’’ثقافت‘‘ دین و مذہب سے الگ چیز ہے؟ ’’میلاد‘‘ کو دھوم دھام سے منانے کی ایک ’’دلیل‘‘ اب یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ اس کا تعلق دین ومذہب سے نہیں بلکہ ثقافت سے ہے۔ پہلے لوگوں کا رہن سہن، معاشرت سادہ تھی، لوگوں کے مکان تنگ اور چھوٹے ہوتے تھے، لباس اور بودوباش اور خوراک وغیرہ سب سادہ تھی۔ اب اس کے برعکس عالیشان رہائشیں ہیں، پوشاکیں اور خوراکیں بھی پرتکلف ہیں حتی کہ مساجد بھی پختہ ہی نہیں، نہایت عالی شان اور زرنگار ہیں۔ اسی طرح میلاد کے جشن میں جو یہ دھوم دھام اور اسرافِ بے جا کی صورتیں ہیں یا جلوس اوراس قسم کے دیگر مظاہر ہیں، ان کا تعلق بھی ثقافت سے ہے، اس لیے جس طرح ثقافت کے دیگر مظاہر کو ’’بدعت‘‘ نہیں کہا جاتا، میلاد کے ان خود ساختہ مظاہروں کو بھی ’’بدعت‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
[1] صحیح مسلم، العلم، باب من سن …، حدیث: 1017، بعد الحدیث، 2673۔