کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 251
امام ذہبی کہتے ہیں: ’’یہ متروک ہے اور ثقہ نہیں ہے۔‘‘[1] امام احمد کہتے ہیں: ’’لوگوں نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا ہے۔‘‘ امام دارقطنی کہتے ہیں: ’’یہ متروک ہے۔‘‘ امام ابن حبان کہتے ہیں: ’’یہ بغیر علم کے جھوٹ بولتا ہے اور اخبار کو بغیر سمجھے الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔‘‘ امام ابن معین کہتے ہیں: ’’یہ ثقہ نہیں ہے۔‘‘ امام بخاری کہتے ہیں: ’’منکر الحدیث ہے۔‘‘[2] (5) ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے، مان لیتے ہیں عید میلاد النبی بدعت ہے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا لیکن یہ بدعت حسنہ ہے جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت شروع کروائی تو لوگوں کو باجماعت نماز تراویح ادا کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’نِعْمَۃِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ‘ ’’یہ اچھی بدعت ہے۔‘‘ یہی مثال عید میلاد النبی کی ہے۔ ازالہ: اس کا مفصل جواب کتاب کے مقدمہ میں گزر چکا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔ (6) اسی طرح ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کے جواز پر متفق اور اس کے منانے کا اہتمام کرتی ہے اور حدیث میں آتا ہے: ’مَا رَاٰہُ الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ‘ ’’جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہی ہوتاہے۔‘‘[3] ازالہ: اس کا مفصل جواب کتاب کے مقدمہ میں، ص: 103-95 میں گزر چکا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
[1] میزان الاعتدال: 500/2۔ [2] الضعفاء الکبیر: 309/2، ومیزان الاعتدال: 500/2۔ [3] مسند أحمد: 379/1۔