کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 248
’’کہہ دیجیے! کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہو جاؤ۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے رحمت سے خوش ہونے کا حکم دیا ہے، نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی رحمت ہیں تو ہم کیوں اس پر خوش نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٧﴾) ’’اور ہم نے آپ کو سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ [2] ازالہ: سورۂ یونس کی آیت کو پیچھے والی آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں رحمت سے کیا مراد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿٥٨﴾) ’’اے لوگو! یقینا تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے (قران کی) نصیحت آگئی ہے اور (یہ) شفا ہے ان (بیماریوں) کے لیے جو سینوں میں ہیں اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ (اے نبی!) کہہ دیجیے !(یہ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے، لہٰذا (لوگوں کو) چاہیے کہ وہ اسی کے ساتھ خوش ہوں، یہ ان چیزوں سے بہت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘[3] ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رحمت سے مراد قرآن مجید ہے۔ صحابۂ کرام بھی اس سے قرآن اور اسلام ہی مراد لیتے تھے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا)کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ابو سعید خدری اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:
[1] یونس 58:10۔ [2] الأنبیآء 107:21۔ [3] یونس 58,57:10۔