کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 245
’’اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور تم اللہ سے ڈرو، بلاشبہ اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔‘‘[1] مزید ارشاد فرمایا: (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ) ’’اور اللہ کا رسول تمھیں جو کچھ دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اسے چھوڑ دو۔‘‘[2] دلچسپ بات یہ ہے کہ استدلال تو نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے سے کیا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ بالکل نہیں رکھا جاتا، بلکہ بہت سے افراد نے لکھاہے کہ اس دن روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ ابن عباد اور ابن عاشر نے اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ شیخ ابو عبداللہ محمد بن محمد بن عبدالرحمن طرابلسی اپنی کتاب ’’مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل‘‘ میں لکھتے ہیں، شیخ زروق ’’شرح القرطبیہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں: ’إِنَّہٗ مِنْ أَعْیَادِ الْمُسْلِمِینَ فَیَنْبَغِي أَنْ لاَّ یُصَامَ فِیہِ‘ ’’یہ دن مسلمانوں کی عیدوں میں سے ہے، اس دن روزہ رکھنا مناسب نہیں ہے۔‘‘[3] شیخ احمد بن خالد الناصری اپنی کتاب ’’الاستقصاء لأخبار دول المغرب الأقصی‘‘ (کی جلد دوم صفحہ: 144) میں لکھتے ہیں کہ میں ساحل سمندر کی طرف گیا۔ مجھے ابن عاشر اور ان کے مرید ملے جو کھانے پینے میں مشغول تھے۔ انھوں نے مجھے بھی کھانے
[1] الحجرات 1:49۔ [2] الحشر 7:59۔ [3] القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل، ص: 631۔