کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 243
پہلے ہی سے اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ جب آپ مدینہ آئے۔ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو آپ نے عاشورا کا روزہ ترک کر دیا۔ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔‘‘[1] سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’ھٰذَا یَوْمُ عَاشُورَائَ وَلَمْ یَکْتُبِ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہٗ وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ شَائَ فَلْیَصُمْ وَمَنْ شَائَ فَلْیُفْطِرْ‘ ’’یوم عاشورا کا روزہ اللہ نے تم پر فرض نہیں کیا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ تم میں سے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘[2] عاشورا کاروزہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی رکھا ہے اور دوسروں کو بھی رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ اس کے برعکس عید میلاد نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منائی، نہ صحابہ نے منائی، نہ تابعین سے اس کا ثبوت ملتاہے اور نہ ائمۂ عظام ہی نے اس کا اہتمام کیا۔ اسے ایک مسنون عمل پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر دین میں نئے امور ایجاد کرنے سے منع فرمایا ہے، سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’إِیَّاکُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘ ’’نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘[3]
[1] صحیح البخاري، الصوم،باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 2002، وصحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 1125۔ [2] صحیح البخاري، الصوم،باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 2003، وصحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 1129۔ [3] سنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، حدیث: 42۔