کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 242
اور صحابہ کے بعض اقوال اور افعال سے استدلال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں ان شبہات کا ازالہ درج ذیل ہے: (1) جب نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے: اس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی۔ ہم شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسٰی مِنْکُمْ، فَصَامَہٗ وَأَمَرَ بِصِیَامِہٖ‘ ’’میں تمھاری نسبت موسیٰ علیہ السلام کا زیادہ حق دار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو رکھنے کا حکم دیا۔‘‘[1] ازالہ:نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہودیوں کو دیکھ کر یہ روزہ شروع نہیں کیا تھا بلکہ مکہ میں بھی آپ عاشورا کا روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو آپ نے اسے لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’کَانَ یَوْمُ عَاشُورَائَ تَصُومُہٗ قُرَیْشٌ فِي الْجَاہِلِیَّۃِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَصُومُہٗ فِي الْجَاہِلِیَّۃِ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ صَامَہٗ وَأَمَرَ بِصِیَامِہٖ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یَوْمَ عَاشُورَائَ، فَمَنْ شَآئَ صَامَہٗ وَمَنْ شَآئَ تَرَکَہٗ‘ ’’عاشورا کے دن قریش روزہ رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعثت سے
[1] صحیح البخاري، الصوم، باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 2004، وصحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 1130۔