کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 240
سال سے ہمارے ملک میں ہورہی ہیں۔ بیان سیرت کی حد تک تو یہ ٹھیک ہے اور مقصد اور جذبہ اگر صحیح ہے تو اس کے کار خیر ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ لیکن ایک تو مولود مروج کے موقع پر ان کا انعقاد محل نظر ہے کیونکہ اس طرح ان کا تعلق ان ہی بدعات سے جڑ جاتا ہے جن کاذکر ہم نے گزشتہ سطور میں کیا ہے۔ یہ کسی اور مہینے میں رکھی جائیں تو بہتر ہے تاکہ برخود غلط لوگوں نے ’’جشن ولادت‘‘ کے عنوان سے جو غیرشرعی رسمیں ایجاد کرلی ہیں، ان سیرت کانفرنسوں سے ان کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔ دوسرے، حکومت کے پاس ہر طرح کے وسائل موجود ہیں اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو عملاً اجاگر کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔ وہ صرف سیرت کانفرنسوں کے انعقاد سے اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکتی تاآنکہ وہ عملی اقدامات بھی بروئے کار نہ لائے۔ اس لیے ہم وزارت مذہبی امور، محکمۂ اوقاف اور حکومت کے دیگر اہم ذمے داروں سے عرض کریں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جذباتی وابستگی کے مظاہرے سے کچھ بلند ہوکر سیرت نبوی کو عملاً اپنانے کی شدید ضرورت ہے۔ ہمارا ملک اخلاقی زوال کی انتہا کو پہنچ چکا ہے، قبر پرستی کی صورت میں کاروبارِ لات و منات عروج پر ہے، رنگ و نسل اور زبان کے وہ بت، جن کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پاش پاش کردیا تھا، ہم نے نہ صرف اپنے حریم دل کے طاقوں میں سجا لیے ہیں بلکہ ان کی پرستش بھی کررہے ہیں، جس کا مظاہرہ سندھ کے علاقوں اور کراچی وغیرہ میں سالہاسال سے ہورہا ہے اورجس کا سلسلہ وقفے وقفے سے تاحال جاری ہے۔ ان حالات میں بہ بانگ دہل مجمع لگا کر لوگوں کو یہ سنانا کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ یہ کارنامے انجام دیے۔ جبکہ خود ہماری اپنی زندگی کا ایک ایک عمل، ایک ایک ادا اور