کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 238
مسلمانوں کے لیے اپنے عظیم الشان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بے مثال کارنامہ جس کی نظیر تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی، انتہائی قابل فخر ہے۔ لیکن (قطع نظر بعض دوسری اہم باتوں کے) اس سلسلے میں اصل سوال یہ ہے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انسانیت ساز کردار اس لائق ہے کہ سب مسلمان اس کو اپنائیں اوراس کو اختیارکریں؟ یا اس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ سال بہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر آپ کے ان محاسن و تعلیمات کا زبانی اظہار کرکے عقیدت و تحسین کے چند پھول آپ کی ذات گرامی کو پیش کردیے جائیں اور بس…۔ اگر آپ کی سیرت صرف موضوعِ گفتار ہی ہے تو پھر ہم میں اور غیر مسلموں میں کیا فرق رہا؟ گفتار کی حد تک تو غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اوران کارناموں کو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں جو جلسہ ہائے سیرت میں بیان کیے جاتے ہیں۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس لائق ہے کہ اس سے صرف زبان و بیان کی محفلوں کو ہی سجانے کا کام نہ لیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عملاً وہ سیرت و کردار بھی اپنایا جائے جن سے آپ نے دنیائے انسانیت کو روشناس کیا تو ہمیں بتلایا جائے کہ پھر آخر ہماری سرگرمیاں جلسہ و جلوس تک ہی محدود ہوکر کیوں رہ گئی ہیں! ہم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے کے لیے کیوں تیار نہیں ہوتے؟ اور جس حساب سے زبانی عقیدت کا جوش و خروش ظاہر کیا جارہا ہے اسی حساب سے ہمارا عمل و کردار پست تر کیوں ہوتا جا رہا ہے، اسی حساب سے ہمارے دلوں کی دنیا کیوں تاریک تر ہوتی جارہی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن و فضائل کی گونج سے ہمارے اپنے ہی کان کیوں بے بہرہ ہیں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کی اس روشنی سے جس سے سارا عالم بقعۂ نور بنا، ہماری اپنی ہی آنکھیں کیوں محروم ہیں؟ بہرحال ہمارا مقصد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اصل