کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 237
نہیں، یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ایمان و توحیدکے تقاضوں کونہیں ماننا تو پھر محمد بن عبداللہ کی ’’ولادت‘‘ کا ’’جشن‘‘ ایک فریب نفس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ بہ مصطفے برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہی است ’’سیرت گوئی‘‘ سے زیادہ ’’سیرت سازی‘‘ کی ضرورت مرکزی وزارت مذہبی امور کے تحت اسلام آباد میں اور محکمۂ اوقاف کے تحت صوبوں میں کئی سال سے ربیع الاول کے مہینے میں سالانہ سیرت کانفرنسیں بڑے تزک و احتشام سے ہورہی ہیں، ان کانفرنسوں میں ملک کے ممتاز رہنما، علماء و فضلاء اور مفکرین و اہل قلم شرکت کرتے ہیں۔ جن کی آمدورفت اور مہمان نوازی پر لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ پوری دنیا کے لیے ایک بہترین اور بے مثال نمونہ ہے۔( لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر فی الواقع صنم کدۂ عرب میں توحید کا علم بلند فرمایا۔شرک و کفر کے ظلمات سے نکال کر لوگوں کے دلوں کو توحید و ہدایت ربانی کے نور سے منور کیا۔ اخلاق باختہ لوگوں کو بااخلاق بلکہ معلم اخلاق بنایا، آپس کے بغض و عناد کو دور کرکے ان میں محبت و الفت پیدا کی۔ بتان رنگ و نسل کو توڑ کر پوری امت مسلمہ کو یک قالب بنایا اور تمیز ما و تو کو مٹایا، غرض محمد عربی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سسکتی ہوئی انسانیت کو سہارا دیا اوراسے مشرکانہ عقائد و توہمات اور اخلاق رزیلہ کی دلدل سے نکال کر توحید اور اخلاق عالیہ کی صراط مستقیم پر گامزن فرمایا۔
[1] الأحزاب 21:33۔