کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 235
ملی جس سے گم گشتگانِ بادیۂ ضلالت محروم تھے۔ یہ دعوت توحید ہی کفار و مشرکین مکہ کے لیے سب سے زیادہ اچنبھے کی چیز تھی اور انھوں نے کہا: (أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴿٥﴾) ’’یہ تو سب معبودوں کو (ختم کرکے) ایک معبود ٹھہراتا ہے یہ تو بڑی ہی تعجب والی بات ہے۔‘‘[1] اس یوم رسالت ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مسلمانوں کے لیے واجب الاطاعت ٹھہری اور آپ کی اطاعت اورآپ کی تابعداری اللہ کی اطاعت اوراس کی محبت کا معیار قرار پائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ ۖ) ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘[2] اور (قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ) ’’کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو تم اللہ کے محبوب بن جاؤ گے اور وہ تمھارے گناہ بھی معاف فرمادے گا۔‘‘[3] اس یوم رسالت ہی سے مسلمانوں کو ایمان و اخلاق کی وہ دولت لازوال حاصل ہوئی جس کی برکت سے مسلمان عرب و عجم پر چھا گئے۔ ایران و روما جیسی عظیم الشان حکومتوں کو روند ڈالا اور دنیا کے خزانے ان کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے۔ یہ برکت اور شان، یہ اعجاز اور تاثیر کس کی تھی؟ محمد بن عبداللہ کی نہیں۔ محمد رسول اللہ کی تھی۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ محمد بن عبداللہ کو تو کفار مکہ بھی مانتے تھے، ان کے اخلاق کے معترف
[1] صٓ 5:38۔ [2] النسآء 80:4۔ [3] آل عمران: 3/31