کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 232
کا جشن منالیں؟ یا محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو اپنی زندگی میں بھی نافذ کریں اوراپنے گردوپیش کے ماحول کوبھی اس کے مطابق بنانے کی حتی المقدور سعی کریں۔ اگر اول الذکر بات ہے تو ظاہر ہے کہ اس خود ساختہ معیار محبت کی رو سے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور ائمۂ دین بھی نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بے گانہ قرار پائیں گے کیونکہ ’’جشن میلاد‘‘ کا یہ اہتمام صحابۂ کرام، تابعین اورائمۂ دین میں سے کسی نے بھی نہیں کیا۔ نہ کسی نے اس کا حکم دیا۔ اور اگر محبت کا مفہوم وہ ہے جو صحابۂ کرام نے سمجھا، تابعین و تبع تابعین نے سمجھا اور امامانِ دین نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو اپنایا جائے، اپنے کردار کو دین کے سانچے میں ڈھالا جائے اور دینی اقدار و روایات کو فروغ دیا جائے جیسا کہ صحابہ و تابعین اور ائمۂ دین نے کیا تو پھر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمارا یہ ’’جشن میلاد‘‘ اس سے کسی قسم کی کوئی مناسبت رکھتا ہے؟ (2) نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے دین میں اپنی طرف سے اضافہ مردود اور ناقابل قبول ہے: ’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ فِیہِ فَہُوَ رَدٌّ‘(1) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دین میں اضافہ شدہ کام(بدعت) مردود ہی نہیں بلکہ گمراہی ہے جو جہنم میں لے جانے والی ہے۔ ’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِي النَّارِ‘