کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 227
پانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل میں لائے جاتے ہیں، لہٰذا اصل اس کی شرع میں ثابت ہے کہ نہیں اور فاعل عامل اس کا بر بنائے ثبوت یا عدم مرتکبِ معصیت ہو گا یا قابلِ ملامت و تادیب؟‘‘ تو مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے حسبِ ذیل جواب تحریر فرمایا: ’’آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں نہ اس دن صحت یابی ٔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرضِ اقدس، جس میں وفات ہوئی، اس کی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔ اور ایک حدیث مرفوع میں آیا ہے: ’آخر أربعاء من الشھر یوم نحس مستمر‘ اور مروی ہے ابتدائے ابتلائے سیدنا ایوب علی نبینا و علیہ الصلاۃ والتسلیم اسی دن تھی اور اسے نحس سمجھ کر مٹی کے برتن توڑ دینا گناہ و اضاعتِ مال ہے۔ بہر حال یہ سب باتیں بے اصل و بے معنی ہیں۔‘‘ واللّٰہ تعالٰی أعلم۔[1] اسی طرح اس فرقے کے ایک اورمفتی لکھتے ہیں: ’’ماہ صفر کا آخری چہار شنبہ ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے۔ لوگ اپنے کاروبار بند کر دیتے ہیں۔ سیروتفریح اور شکار کو جاتے ہیں، پُوریاں پکتی ہیں اورنہاتے دھوتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرون مدینہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ ان دنوں میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض شدت کے ساتھ تھا، لوگوں کی جو باتیں بنائی ہوئی ہیں، سب خلافِ واقعہ ہیں۔‘‘[2] الغرض مذکورہ صراحت اوراعتراف کے بعد اس دن کو، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شدید بیمار ہوئے کہ آپ جانبر نہ ہو سکے، جشن کے طور پر منانا اور خوشی میں جلُوس نکالنا
[1] احکامِ شریعت مسئلہ : 93 حصہ دوم، ص: 111,110 ۔ [2] ’’بہارِ شریعت‘‘‘ سولہواں حصہ، ص: 258۔