کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 226
نشان نہیں ملتا اور اس کے بعد کے عہد صحابہ و تابعین میں بھی اس قسم کی کوئی چیز نہیں ملتی، اس لیے ’’یومِ غسل صحت‘‘ سراسر خانہ ساز ہے جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ علاوہ ازیں تاریخی طور پر بھی یہ بات خلافِ واقعہ ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسلِ صحت فرمایا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس تاریخوں میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا آغاز ماہِ صفر کے بالکل آخر میں (جبکہ اس کی چند راتیں یا صرف دو راتیں باقی رہ گئی تھیں) ہوا۔ بعض تاریخوں میں اسے یوم اربعاء (بدھ کا دن) قرار دیا گیا ہے یا بقولِ بعض ربیع الاوّل کی ابتدا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور پھر بیمار ہی رہے۔ یہاں تک کہ بارہ (12) ربیع الاول بروز پیر آپ دنیا سے رحلت فرما گئے۔ فکان شکواہ إلٰی أن قبض صلي اللّٰه عليه وسلم ۔[1] مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی کا اعتراف اور صراحت علاوہ ازیں خود بریلویوں کے ’’امام‘‘ احمد رضا خاں بریلوی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ اُن سے جب آخری چہار شنبہ کی بابت یہ سوال کیا گیا: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس امر میں کہ صفر کے اخیر چہار شنبہ کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس روز حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض سے صحت پائی تھی بنابر اس کے اس روز کھانا وشیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور جنگل کی سیر کرتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس مختلف جگہوں میں مختلف معمولات ہیں۔ کہیں اس روز کو نحس و مبارک جان کر گھر کے پُرانے برتنِ گِل توڑ ڈالتے ہیں اور تعویذ و چھلا چاندی کے اس روز کی صحت بخشیٔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مریضوں کو استعمال کراتے ہیں یہ جملہ اُمور بربنائے صحت
[1] ملاحظہ ہو: تاریخ الطبري : 184/3 طبع جدید، و سیرت ابن ہشام: 624/4، و طبقات ابن سعد: 11/2، والبدایۃ والنہایۃ: 224,223/5، وأسد الغابۃ: 34,33/1، طبع قدیم اور دیگر کتب تواریخ۔