کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 201
٭ واقعات کربلا سے متعلقہ سب ہی تاریخوں میں ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب کوفے کی طرف کوچ کرنے کے لیے تیار ہو گئے تو ان کے رشتہ داروں اور ہمدردوں نے انھیں روکنے کی پوری کوشش کی اور اس اقدام کے خطرناک نتائج سے انھیں آگاہ کیا۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سعید خدری،حضرت ابو الدرداء، حضرت ابوواقدلیثی، جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی محمد ابن الحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نمایاں ہیں۔ آپ نے ان کے جواب میں نہ عزم سفر ملتوی فرمایا نہ اپنے موقف کی کوئی دلیل پیش کی، ورنہ ممکن تھا کہ وہ بھی اس موقف میں آپ کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ ہو جاتے۔ دراصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اہل کوفہ ان کو مسلسل کوفہ آنے کی دعوت دے رہے ہیں، یقینا وہاں جانا مفید ہی رہے گا۔ ٭ یہ بھی تمام تاریخوں میں آتا ہے کہ ابھی آپ راستے ہی میں تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ کوفے میں آپ کے چچیرے بھائی (چچازاد) مسلم بن عقیل شہید کر دیے گئے جن کو آپ نے کوفے کے حالات معلوم کرنے کے لیے ہی بھیجا تھا۔ اس المناک خبر سے آپ کا اہل کوفہ سے اعتماد متزلزل ہو گیا اورواپسی کا عزم ظاہر کیا لیکن حضرت مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس ہونے سے انکار کر دیا کہ ہم تو اپنے بھائی مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مر جائیں گے، اس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تمھارے بغیر میں بھی جی کر کیا کروں گا؟‘‘ ’فَھَمَّ أَنْ یَّرْجِعَ وَکَانَ مَعَہٗ إِخْوَۃُ مُسْلِمِ بْنِ عَقِیلٍ فَقَالُوا: وَاللّٰہِ! لَا نَرْجِعُ حَتّٰی نُصِیبَ بِثَأْرِنَا أَوْنُقْتَلَ‘