کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 200
اس سے نہ صرف یہ کہ الگ رہتے بلکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اس سے روکتے، کیا ایسا ممکن تھا؟ رافضی آئیڈیالوجی تو یہی ہے کہ وہ (معاذ اللّٰہ) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کفروارتداد اور منافقت کے قائل ہیں اور وہ یہی کہیں گے کہ ہاں اس معرکۂ کفرو اسلام میں ایک طرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری طرف صحابہ سمیت یزید اور دیگر ان کے تمام حمایتی، صحابہ و تابعین اس جنگ میں خاموش تماشائی بنے رہے اور حسین رضی اللہ عنہ نے اسلام کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔لیکن کیا اہل سنت اس نقطۂ نظر کو تسلیم کرلیں گے؟ یقینا کوئی اہل سنت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اس قسم کا عقیدہ نہیں رکھتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بڑی تلخ ہے کہ اہل سنت شہادت حسین کا جو فلسفہ بیان کرتے ہیں وہ اسی تال سر سے ترتیب پاتا ہے جو رافضیت کا مخصوص راگ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سانحۂ کربلا کو حق و باطل کا سب سے بڑا معرکہ باور کرانے سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کردار اور ان کی دینی حمیت مجروح ہوتی ہے اور دشمنانِ صحابہ کامقصد بھی یہی ہے لیکن یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ واقعہ ایسا ہے یا نہیں؟ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ کفرواسلام کا معرکہ نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس راہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اکیلے نہ ہوتے، ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا تعاون بھی انھیں حاصل ہوتا جن کی پوری عمریں اعلائے کلمۃ اللہ میں گزریں، جو ہمہ وقت باطل کے لیے شمشیر برہنہ اور کفرو ارتداد کے لیے خدائی للکار تھے۔ یہ تصادم دراصل بعض اجتہادی غلطیوں کے نتیجے میں پیش آیا تھا، اس نکتے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل پہلو قابل غور ہیں۔