کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 195
فوت نہیں ہوا؟ (لیکن تعجب کی بات ہے کہ) انھوں نے اس سانحۂ شہادت مظلومانہ کو کھیل کود کی چیز بنا لیا… تم نے ماتم کو عید کے تہوار کی طرح بنا لیا، گویا اس دن زیادہ کھانا پینا فرض ہے اورنمازوں کا تمھیں کوئی خیال نہیں (جو فرض ہیں) ان کو تم نے ضائع کر دیا، یہ لوگ اپنے ہی من گھڑت کاموں میں مشغول رہتے ہیں، نمازوں کی توفیق ان کو ملتی ہی نہیں۔‘‘[1] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ 354ھ کے واقعات میں ماتمی جلوسوں کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ’ہٰذَا تَکَلُّفٌ لَا حَاجَۃَ إِلَیْہِ فِي الإِْسْلَامِ وَلَوْ کَانَ أَمْرًا مَّحْمُودًا لَّفَعَلَہٗ خَیْرُ الْقُرُونِ وَصَدْرُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ وَخِیَرَتُہَا وَہُمْ أَوْلٰی بِہٖ وَأَہْلُ السُّنَّۃِ یَقْتَدُونَ وَلَا یَبْتَدِعُونَ‘ ’’یہ (ماتمی مجالس وغیرہ کی) رسمیں، اسلام میں ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر یہ واقعتا اچھی چیز ہوتی تو خیر القرون اور اس امت کے ابتدائی اور بہتر لوگ اس کو ضرور کرتے، وہ اس کے سب سے زیادہ اہل تھے (بات یہ ہے کہ) اہل سنت (سنت نبوی کی) اقتدا کرتے ہیں، اپنی طرف سے بدعتیں نہیں گھڑتے۔‘‘[2] شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ ازجملہ بدعات رَفَضَہ کہ در دیار ہندوستان اشتہار تمام یافتہ ماتم داری و تعزیہ سازی است درماہ محرم بزعم محبت حضرت حسنین رضی اللہ عنہما … وصور ظاہریہ ایں بدعات چند چیز
[1] التفھیمات الإلٰھیۃ: 288/1، تفھیم رقم: 69، طبع حیدر آباد سندھ 1970ء ۔ [2] البدایۃ والنھایۃ: 271/11۔