کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 193
معزالدولہ نے یہ مشورہ قبول کر لیا۔[1] غالباً تبرا کی اس منافقانہ شکل کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے۔ معزالدولہ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ بغداد میں رافضیوں کے تمام مراسم جاری کر دیے، عید غدیر کے دن عام عید اور جشن مسرت منانے کا حکم دیا۔ محرم کے لیے حکم جاری کیا کہ عاشورے کے دن تمام دکانیں اور کاروبار بند رکھے جائیں، کل مسلمان خاص قسم کی ٹوپیاں پہن کر نوحہ و ماتم کریں۔ عورتیں چہرے پر بھبھوت مل کر پریشان مُو(بکھرے بال) و گریبان چاک، سینہ کوبی کرتی ہوئی شہر میں ماتمی جلوس نکالیں، سنیوں پر یہ احکام بہت شاق گزرے لیکن وہ رافضیوں کی قوت اور حکومت کے سامنے بے بس تھے، اس لیے ان احکام کو منسوخ تو نہ کراسکے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محرم 353ھ میں رافضیوں اور سنیوں میں سخت فساد ہوا۔ اور بغداد میں بڑی بدامنی پھیل گئی۔‘‘ [2] قیامِ امن کا واحد طریقہ ان تاریخی حوالوں سے واضح ہے کہ سانحۂ شہادتِ حسین کے حوالے سے شیعی رسومات اور ان پر اصرار، مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار اور باہم فساد و خوں ریزی کا بہت بڑا سبب ہے۔ بنابریں جب تک ان کا انسداد و خاتمہ یا کم از کم انھیں ان کی مخصوص چار دیواریوں تک محدود نہیں کیا جاتا، فتنہ و فساد ختم نہیں ہو سکتا۔ امن، محض اتحاد کے اعلانات یا امن کمیٹیوں کے قیام سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ان اسباب و عوامل کا سد باب ضروری ہے جو فساد اور باہم تصادم میں کار فرما ہوتے ہیں۔ جب تک یہ نہیں ہو گا، فرقہ وارانہ تصادم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ؎
[1] الکامل في التاریخ لابن أثیر: 275/7۔ [2] الکامل في التاریخ لابن أثیر: 279/7و 286، وتاریخ اسلام شاہ معین الدین احمد ندوی، اعظم گڑھ: 13,12/4۔