کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 186
کسی سے اس میں خصوصی طور پر زیادہ خرچ کرنے کا ذکر تک نہیں سنا۔ اگر ان کے ہاں کوئی ایسی روایت ہوتی تو باقی احادیث کی طرح اس کا بھی وہ ذکر کرتے۔‘‘[1] اس روایت کی پوری سندی تحقیق حضرت الاستاذ المحترم مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مفصل مضمون میں کی ہے جو الاعتصام (13 مارچ 1970ء) میں شائع ہوا تھا۔ مَنْ شَآئَ فَلْیُرَاجِعْہُ۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔[2] یہ تمام مذکورہ امور وہ ہیں جو اہل سنت کے عوام کرتے ہیں، روافض ان ایام میں جو کچھ کرتے ہیں، ان سے اس وقت بحث نہیں، اس وقت ہمارا روئے سخن اہل سنت کی طرف ہے کہ وہ بھی دین اسلام سے ناواقفیت، عام جہالت اور ایک برخود غلط فرقے کی دسیسہ کاریوں سے بے خبری کی بنا پر مذکورہ بالا رسومات بڑی پابندی اور اہتمام سے بجا لاتے ہیں، حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام کے ابتدائی دور کے بہت بعد کی ایجاد ہیں جو کسی طرح بھی دین کا حصہ نہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَرَدٌّ‘ ’’دین میں نو ایجاد کا م مردود ہے۔‘‘[3] کی مصداق ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔ بدعات و رسومات کی ہلاکت خیزیاں دین میں اپنی طرف سے اضافے ہی کو بدعت کہا جاتا ہے، پھر یہ چیزیں صرف
[1] البدع والنھي عنھا، ص: 45 مطبوعہ دمشق 1349ھ۔ [2] السلسلۃ الضعیفۃ: 738/14، حدیث: 6824۔ [3] صحیح البخاري، الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح…، حدیث: 2697، وصحیح مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ…، حدیث: 1718، واللفظ لہ ۔