کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 182
دونوں ہی اہل بیت ہیں۔ ازواج مطہرات قرآن کریم کی رُو سے اہل بیت ہیں اور حضرت علی و فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم حدیث کی رُو سے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾) ’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اے اہل بیت! تم سے گندگی دور کر دے اور تم کو خوب پاک کر دے۔‘‘[1] یہاں سیاق و سباق کی رُو سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اہل بیت نبوی ہیں۔ قرآن کے دوسرے مقام پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے۔ دیکھیے (ھود 73:11) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’نَزَلَتْ فِي نِسَائِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم خَاصَّۃً‘ ’’یہ آیتِ (تطہیر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔‘‘ اوراس اثر کے راوی حضرت عکرمہ کہا کرتے تھے کہ اس سے مراد ازواج مطہرات ہیں، کسی کو اس سے انکار ہے تو میں اس سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں۔ [2] علاوہ ازیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’مَنْ یَعْذِرُنَا فِي رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاہُ فِي أَھْلِ بَیْتِي؟‘ ’’ایسے شخص کی طرف سے کون عذر خواہی کرے گا جو مجھے میرے گھر والوں کے بارے میں اذیت پہنچاتا ہے۔ ‘‘[3]بھی اس کی واضح دلیل ہے۔ اس لیے ازواج مطہرات کا اہل بیت ہونا نصِّ قرآنی اور حدیث سے واضح ہے۔ علاوہ ازیں داماد اور اولاد اُن روایات کی رُو سے اہل بیت ہیں جو صحیح سند سے ثابت ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو اپنی چادر
[1] الأحزاب 33:33۔ [2] تفسیر ابن أبي حاتم: 3132/9، اثر: 17675۔ [3] صحیح البخاري، الشہادات، باب إذا عدّل رجل رجلا …، حدیث: 2637۔