کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 171
جس نے ایمان کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام ہی پر اس کی موت ہوئی۔ پس اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی (قطع نظر اس سے کہ) اسے آپ کی ہم نشینی کا شرف زیادہ حاصل رہا یا کم، آپ سے روایت کی یا نہ کی۔ آپ کے ساتھ غزوے میں شریک ہوا یا نہیں اور جس نے آپ کو صرف ایک نظر ہی سے دیکھا ہو اور آپ کی مجالست (ہم نشینی) کی سعادت کا موقع اسے نہ ملا ہو اور جو کسی خاص سبب کی بنا پر آپ کی رؤیت کا شرف حاصل نہ کر سکا ہو، جیسے نابینا پن۔‘‘[1] اس لیے اہل سنت کا خلفائے اربعہ ابو بکرو عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور دیگر ان جیسے اکابر صحابہ کی عزت و توقیر کو ملحوظ رکھنا تو درست ہے لیکن بعض ان جلیل القدر اصحاب رسول کی منقبت و تقدیس کا خیال نہ رکھنا یا کم از کم انھیں احترام مطلوب کا مستحق نہ سمجھنا جن کے اسمائے گرامی مشاجرات کے سلسلے میں آتے ہیں، جیسے حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں، یکسر غلط اور دشمنانِ صحابہ کے عقائد کا ایک حصہ ہے۔ اہل سنت کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ خلفائے راشدین کی عزت و توقیر توکسی حد تک ان کے معقولیت پسند حضرات بھی ملحوظ رکھنے پر مجبور ہیں اور ان کا ذکر وہ نامناسب انداز میں کرنے سے بالعموم گریز ہی کرتے ہیں، البتہ حضرت معاویہ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما وغیرہ کو وہ بھی معاف نہیں کرتے۔ اگر صحابۂ کرام کے نام لیوا بھی یہی موقف اختیار کر لیں تو پھر محبان صحابہ اور دشمنان صحابہ میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ اور ان صحابہ کو احترام مطلوب سے فروتر خیال کر کے ان کے شرف و فضل کو مجروح کرنا کیا
[1] الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: 158/1۔