کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 170
ماتم حسین‘‘ مکمل نہیں ہوتی۔ اہل سنت اس پستی و کمینگی تک تو نہیں اترتے، تاہم بعض لوگ بوجوہ بعض صحابہ پر کچھ نکتہ چینی کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، مثلاً: ایک ’’مفکر‘‘ نے تو یہاں تک فرما دیا کہ قلیل الصحبت ہونے کی وجہ سے ان کی قلب ماہیت نعوذ باللہ نہیں ہوئی تھی، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام اعلیٰ و ادنیٰ صحابہ کا فرق مراتب کے باوصف بحیثیت صحابی ہونے کے یکساں عزت و احترام اسلام کا مطلوب ہے۔ کسی صحابی کے بارے میں زبان طعن و تشنیع کھولنا اور ریسرچ کے عنوان پر نکتہ چینی کرنا ہلاکت و تباہی کے خطرے کو دعوت دینا ہے۔ صحابی کی تعریف ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو اور اسی پر اس کی وفات ہوئی ہو۔ قرآن و حدیث میں صحابۂ کرام کے جو عمومی فضائل و مناقب بیان کیے گئے ہیں، ان کا اطلاق بھی ہر صحابی پر ہو گا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الإصابۃ‘‘ میں صحابی کی جس تعریف کو سب سے زیادہ صحیح اور جامع قرار دیا ہے، وہ یہ ہے: ’وَأَصَحُّ مَا وَقَفْتُ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ: أَنَّ الصَّحَابِيَّ مَنْ لَّقِيَ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم مُؤْمِنًا بِہٖ، وَمَاتَ عَلَی الإِْسْلَامِ، فَیَدْخُلُ فِیمَنْ لَّقِیَہٗ مَنْ طَالَتْ مُجَالَسَتُہٗ لَہٗ أَوْقَصُرَتْ، وَمَنْ رَّوٰی عَنْہُ أَوْلَمْ یَرْوِ، وَمَنْ غَزَا مَعَہٗ أَوْلَمْ یَغْزُ، وَمَنْ رَّاٰہُ رُؤْیَۃً وَّلَمْ یُجَالِسْہُ، وَمَنْ لَّمْ یَرَہٗ لِعَارِضٍ کَالْعَمٰی‘ ’’سب سے زیادہ صحیح تعریف صحابی کی جس پر میں مطلع ہوا وہ یہ ہے کہ وہ شخص