کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 164
ختم کرکے صرف 9محرم کے روزے ہی کو فرمانِ رسول کا مصداق قرار دینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ یہ تو دس محرم کے روزے کو، جس کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے، منسوخ کرنا ہے۔ کیا بغیر دلیل کے اس کو منسوخ قرار دینا صحیح ہے؟ علاوہ ازیں لأََصُومَنَّ التَّاسِعَ حدیث کے راوی بھی حضرت ابن عباس ہیں اور مصنف عبدالرزاق میں انھی کا قول بیان ہوا ہے۔ گویا راوی کی حدیث کی وضاحت خود راوی ہی کے فتوے سے ہو گئی ہے، اس کے بعد لأََصُومَنَّ التَّاسِعََ کے مفہوم میں اشکال باقی نہیں رہتا اور نہ رہنا ہی چاہیے۔ اسی لیے صاحب مرعاۃ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، حافظ ابن حجر، امام شوکانی، امام ابن حزم اور دیگر متعدد علماء رحمۃ اللہ علیہم نے اسی مفہوم کو زیادہ صحیح اور راجح قرار دیا ہے۔[1] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب موقف کی وضاحت بعض لوگوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ دس محرم کے بجائے 9 محرم کا روزہ رکھتے تھے اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور اسی کو وہ عاشوراء سے تعبیر کرتے تھے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی 9 محرم کا روزہ رکھتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا ’’ہاں۔‘‘[2]لیکن ان کی طرف یہ موقف منسوب کرنا درست نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جو عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہے اسے چاہیے کہ 9محرم سے شروع کرے، صرف 10محرم کے روزے پر اکتفا نہ کرے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول تمام روایات کو جمع
[1] ملاحظہ ہو: مرعاۃ المفاتیح: 270/3، طبع قدیم، والسیل الجرار للشوکاني، والمحلی لابن حزم، وعون المعبود ۔ [2] صحیح مسلم، الصیام، باب أي یوم یصام في عاشورائ، حدیث: 1133۔