کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 162
’’عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھو لیکن یہودیوں کی مخالفت بھی بایں طور کرو کہ اس کے بعد یا اس سے قبل ایک روزہ اور ساتھ ملا لیا کرو۔‘‘[1] ایک اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو صحابہ نے آپ کو بتلایا کہ یہ دن تو ایسا ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’لَئِنْ بَقِیتُ إِلٰی قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعََ‘ ’’اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا۔‘‘[2] لیکن اگلا محرم آنے سے قبل ہی آپ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ’’میں نویں محرم کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ کا مطلب ہے کہ صرف محرم کی 9 تاریخ کا روزہ رکھوں گا، یعنی دس محرم کا روزہ نہیں بلکہ اس کی جگہ 9 محرم کا روزہ رکھوں گا، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اب صرف 9 محرم کا ایک روزہ رکھنا مسنون عمل ہے۔ 10 محرم کا روزہ رکھنا بھی صحیح نہیں اور 10 محرم کے ساتھ9 محرم کا روزہ ملا کر رکھنا بھی سنت نہیں۔ بلکہ اب سنت صرف 9 محرم کا ایک روزہ ہے۔ لیکن یہ رائے صحیح نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب ہے کہ میں 10 محرم کے ساتھ 9 محرم کا روزہ بھی رکھوں گا، اسی لیے ہم نے ترجمے میں… بھی… کا اضافہ کیا ہے کیونکہ 10 محرم کا روزہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نجات پانے کی خوشی میں رکھا جارہا تھا، اس اعتبار سے 10 محرم کے روزے کی مسنونیت تو مسلّم ہے لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آپ نے اس
[1] مسند أحمد: 241/1۔ یہ حدیث مرفوعاً ضعیف ہے۔ درحقیقت یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اثر ہے جو کہ صحیح سند سے مروی ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو: تحقیق مشیخۃ أبي طاہر بن أبي الصقر للشیخ الشریف حاتم بن عارف العوني، ص: 68-66۔ [2] صحیح مسلم، الصیام، باب أي یوم یصام في عاشورائ؟ حدیث: 1134۔