کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 154
ہوتے ہوئے کسی ایک ملک کی رؤیت کو عالَم اسلام کے تمام ممالک کے لیے کافی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ٭ ہر علاقے کے لوگوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت ضروری ہے، البتہ ایک ملک کی حد تک کسی ایک علاقے یا ایک شہر کی رؤیت کو پورے ملک کے لیے قابل اعتبار گردانا جاسکتا ہے کیونکہ ایک ملک کے شہروں کے مطالع میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا، تا ہم مختلف صوبوں میں اگر الگ الگ عیدیں بھی اپنی اپنی رؤیت کی بنیاد پر ہوں تو شرعاً یہ بھی جائز ہے۔ ٭ رصد و فلکیات کے علم سے چاند کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فائدہ اٹھانا اور اس پر اعتماد کرنا جائز ہے، تاہم فلکیات کی بنیاد پر سارے سال کے لیے کیلنڈر بنانا ناجائز ہے۔ ٭ اہل خیبر کے معاملے کو علماء باہم مل کر حل کریں جیسا کہ ہم نے بھی اس سلسلے میں ایک تجویز پیش کی ہے، لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو سکے تو ان کا باقی صوبوں سے پہلے چاند دیکھ کر الگ عید منانا یا رمضان کا آغاز کرنا کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں ہے کہ اس کو بہت زیادہ اہمیت دی جائے۔ ان کے معاملے کو ان کے علماء ہی پر چھوڑ دیا جائے۔ ٭ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا طریقۂ کار صحیح ہے اور اس کے فیصلے کے مطابق عید و رمضان کا آغاز کرنا صحیح ہے، اہل خیبر بھی اگر اس کے مطابق ہی عیدین و رمضان کا اہتمام کریں تو بہتر ہے، تاہم اگر وہ اپنی رؤیت کے مطابق عمل کریں اور اپنے لوگوں کی شہادتوں پر اعتماد کریں جیسا کہ سالہاسال سے وہاں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے تو شرعاً کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔