کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 151
فی الواقع پہلا فیصلہ غلط ہو تو اسے تبدیل کرنے میں کوئی عار اور سبکی محسوس نہیں کرنی چاہیے نہ اسے انا اور وقار کا مسئلہ بنانا چاہیے۔ شنید ہے کہ سعودی عرب میں بھی بعض دفعہ فیصلہ تبدیل کرکے نیا اعلان کیا گیا ہے۔ اس نظیر پر یہاں بھی عمل کیا جانا چاہیے، یہ ایک شرعی مسئلہ ہے جس میں شریعت ہی کی رو سے فیصلہ تبدیل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں عیسوی تقویم کے بجائے قمری تقویم کو اختیار کیا جائے، تاکہ لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کیا کریں۔ ہم نے چونکہ قمری تقویم سے تعلق بالکل منقطع کردیا ہے، اس لیے لوگ چاند دیکھنے کا اہتمام ہی نہیں کرتے، جو ایک بہت بڑی کوتاہی ہے۔ اس کوتاہی کا ازالہ بھی نہایت ضروری ہے۔ اور اس کا ایک طریقہ تو وہی ہے جو ہم نے عرض کیا، یعنی قمری تقویم کو اختیار کرنا، قمری تاریخیں ہی ملک میں رائج ہوں، اسی کے مطابق تنخواہیں ملیں اور اسی کے مطابق تعطیلات وغیرہ ہوں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر قمری تاریخ کو 29 ویں شب کے لیے حکومت کی طرف سے چاند دیکھنے کی اپیل شائع ہو۔ حکومت اپنے مخصوص مقاصد وعزائم کے اظہار کے لیے بلامبالغہ کروڑوں روپے اشتہارات کی مد میں خرچ کرتی ہے، اگر وہ چند لاکھ روپے اس کام پر بھی صرف کردیا کرے تو اس کے بہترین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ چاند کی ہر 29 تاریخ کے قومی اخبارات میں اشتہار کے طور پر یہ اعلان شائع ہو کہ ’’لوگ آج شام کو چاند دیکھنے کا اہتمام کریں اور چاند نظر آنے کی صورت میں حسبِ ذیل نمبروں پر فون کے ذریعے سے اطلاع دیں…‘‘ ہر علاقے کے اخبارات میں وہاں کی زونل کمیٹی کا فون نمبر دیا جائے، دیگر ضروری نمبر دیے جاسکتے ہیں۔ بہرحال ایک مسلمان مملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہاں ذوق وشوق کے ساتھ چاند دیکھنے کا اہتمام ہو، اگر