کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 149
ہے، اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس کا کوئی جواز ہے یا نہیں؟ (2) رؤیت ہلالِ کمیٹی کو مزید بہتر کس طرح بنایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے کیا مزید اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ بعض حلقوں کی طرف سے بلکہ چند سال قبل خود وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے یہ تجویز منظر عام پر آئی تھی کہ رؤیتِ ہلال کمیٹی کا وجود ختم کردیا جائے اور یہ معاملہ خود وزارت مذہبی امور سنبھال لے اور وہی علماء کے فیصلے کے بغیر رؤیت یا عدم رؤیت کا اعلان کرے، البتہ ایک اطلاعاتی مرکز قائم کیاجائے جس میں تمام جدید سائنسی آلات اور سہولیات موجود ہوں۔ وزارت مذہبی اُمور اس کی مدد سے چاند کے دیکھنے اور اس کا فیصلہ کرنے کا اہتمام کرے۔ (3) سعودی عرب کو حرمین مقدسین کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں عزت و احترام کا ایک خاص مقام حاصل ہے، پاکستان میں اس کی رؤیت اور فیصلے کو بنیاد بنالیا جائے اور اس کے مطابق ہی یہاں رمضان کے آغاز کا اور عیدین منانے کا اہتمام کیا جائے۔ یہ اتحادِ اُمت کی اچھی مثال بھی بن سکتی ہے۔وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے خیال میں وزارتِ مذہبی اُمور کی مذکورہ دونوں ہی تجویزیں نہ صرف درست نہیں بلکہ قابل عمل بھی نہیں!! جہاں تک پہلی تجویز کا تعلق ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے سے علمائے کرام کا تعلق ختم کردیا جائے اور یہ معاملہ کلیتًا حکومت کے ہاتھ میں چلاجائے۔ لیکن اس سے مسئلہ سلجھے گا نہیں، مزید اُلجھے گا، اس لیے کہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے جس میں رہنمائی کے لیے عوام دینی رہنماؤں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کریں گے کیونکہ وہ شرعی مسئلے میں حکومت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔