کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 140
عہدِ صحابہ کے اس واقعے سے بھی، جو پہلے حضرت کریب کا گزر چکا ہے، اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ مطالع مختلف ہونے کی صورت میں اپنے اپنے علاقے ہی کی رؤیت ضروری ہوگی، یا زیادہ سے زیادہ ایک ملک کے لیے کافی ہو گی، بشرطیکہ اس کے مختلف صوبوں اور حصوں کے مطالع میں زیادہ اختلاف نہ ہو۔کسی دور دراز کے ملک کی رؤیت، جس کا مطلع اور نظام الاوقات مختلف ہو، دوسرے علاقوں کے لیے قابلِ اعتبار نہیں ہوگی۔ یہ واقعہ صحیح مسلم میں ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب مطالع میں زیادہ اختلاف ہو تو ایک کی رؤیت دوسرے کے لیے معتبر نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے شام کی رؤیت کو اہل مدینہ کے لیے ناکافی سمجھا اور اس امر کا انتساب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف فرمایا۔ جن ممالک کے مطالع مختلف نہ ہوں، وہ ایک دوسرے کی رؤیت کا اعتبار کرسکتے ہیں البتہ ایسے قریبی ممالک جن کے مطالع میں زیادہ اختلاف نہ ہو اور وہ رؤیت والے ملک کے مغرب میں واقع ہوں تو وہ اس کی رؤیت پر اعتماد کرسکتے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کا اظہار کیا ہے، چنانچہ ایک سعودی عالم و مفتی شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن الجبرین رحمۃ اللہ علیہ (متوفی جولائی 2009ء) تحریر فرماتے ہیں: ’’شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ جن ممالک میں چاند دیکھا گیا اور جو ممالک ان سے آگے، یعنی مغرب کی جانب ہوں، ان سب پرروزہ رکھنا فرض ہوگا اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جب کسی ایک ملک میں چاند دیکھا گیا