کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 139
دیگر اسلامی مہینوں کے آغاز کا تعین کردیا جائے اور پورے عالم اسلام کو اس کے مطابق مہینوں کے آغاز و اختتام کا پابند بنادیا جائے۔ ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح اجتماعی طور پر عیدین وغیرہ کو بطور تہوار منانے کے جذبے کی تو تسلی ہوجائے گی لیکن ایسا کرنا نصوصِ شریعت سے متصادم ہوگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو۔‘‘ یعنی روزہ رکھنا چھوڑو۔ اسی حدیث میں آگے یہ الفاظ ہیں: ’فَإِنْ غُبِّيَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلَاثِینَ‘ ’’اگر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے 30 دن پورے کرو۔‘‘[1] گویا چاند کا دیکھا جانا ضروری ہے کیونکہ مطلع ابر آلود ہونے کی صورت میں یہ امکان بھی یقینا موجود ہے کہ چاند موجود ہو لیکن نظر نہ آسکے لیکن امکان کو اہمیت نہیں دی گئی بلکہ رؤیت ہی کو اصل قرار دیا گیا۔ اس سے اسی امر کی تائید ہوتی ہے کہ محض فلکیات کی بنیاد پر ایسا کیلنڈر بنانا جائز نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر پورا عالمِ اسلام ایک ہی دن رمضان، شوال اور ذوالحجہ وغیرہ کا آغاز کرے کیونکہ اس حسابی کیلنڈر کی بنیاد امکان، تخمینہ اور غیر یقینی علم پر ہوگی جبکہ حکم رؤیت (دیکھنے) کا اعتبار کرنے کا ہے۔ بنابریں عیدین وغیرہ کسی نہ کسی حیثیت سے ملی تہوار ضرور ہیں لیکن اصلاً یہ عبادات ہیں، جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں جو سب سے اہم عبادت ہے لیکن کسی کے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ اس میں ایسی اجتماعیت ہونی چاہیے کہ ایک ہی وقت میں پورے عالم اسلام میں ہر نماز پڑھی جائے کیونکہ مطالع کے اختلاف کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی طرح رمضان اور عیدین وغیرہ کا معاملہ ہے، مطالع کے اختلاف کی وجہ سے پورے عالم اسلام کے لیے ایک کیلنڈر نہیں بنایا جاسکتا۔
[1] صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1909۔