کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 135
اہل خیبر (سرحد) کا معاملہ؟ یہ ایک نہایت قابل غور معاملہ ہے کہ ہر سال یہ مسئلہ صرف صوبہ خیبرکے لوگوں کی وجہ سے اختلاف وافتراق کا باعث بنتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟… دوسرے صوبوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی وجہ بعض لوگ علمائے اہل خیبرکا دوسرے صوبوں کے مقابلے میں، زیادہ دین دار ہونا بتلاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بہت سے ذمہ دار حضرات یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں بعض علاقے ایسے ہیں کہ وہ یوں ہی شور مچا دیتے ہیں: ’’چاند ہوگیا اور کل عید ہے یا روزہ ہے۔‘‘ راقم جب مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کارکن تھا تو صوبہ خیبرکے دو نمائندے اس میں شامل تھے، وہ دونوں اختلافِ مسلک کے باوجود اس بات پر متفق تھے کہ رؤیتِ ہلال کے بارے میں صوبہ خیبر کے لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وہ ویسے ہی چاند ہونے کا اعلان کردیتے ہیں۔ مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے سابقہ چیئرمین مولانا عبد اللہ صاحب نے ایک مرتبہ خود اس امر کا ذاتی مشاہدہ حاصل کیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ 29 شعبان 1418ھ کو، جبکہ سرحد میں یکم رمضان تھی اور وہاں 28 شعبان کو 30 آدمیوں نے چاند دیکھنے کی شہادت دی تھی اور اسی بنا پر وہاں مقامی کمیٹی نے روزے رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ میں نے وہاں کے بعض علماء سے کہا کہ آج آپ کے حساب سے رمضان کی دوسری رات ہے اور آج چاند واضح اور صاف نظر آنا چاہیے۔ جبکہ فلکیات والوں کا کہنا یہ تھا کہ آج چاند بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں ممکن ہے نظر آجائے، اس کے علاوہ کہیں نظر آنے کا امکان نہیں ہے، چنانچہ میں ان علمائے سرحد کو لے کر ایک پہاڑ پر چڑھ گیا،