کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 134
اللہ تعالیٰ اگرچہ اسباب کا پابند نہیں ہے لیکن اس کی مشیت و حکمت کے تحت نظامِ کائنات اسباب کے مطابق ہی چل رہا ہے۔ کائنات کی آفرینش سے لے کر آج تک اس میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چاند کی وِلادت اس کے وجود و ظہور کا سبب ہے، جب تک یہ سبب (ولادت) نہ ہوگا، چاند اُفق پر نظر ہی نہیں آسکتا۔ اور رصد وفلکیات کا علم اسی سبب کے جاننے کا نام ہے، وہ اس علم کی رُو سے چاند کی رفتار کا جائزہ لیتا ہے، اس کی ولادت کا تعین کرتا ہے اور بتلاتا ہے کہ وہ اُفق پر کب ظاہر ہوسکتا ہے، اس لیے اس علم کا انکار کیا جاسکتا ہے، نہ اس سے استفادے کو ممنوع قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ جس طرح ہم طلوع و غروبِ آفتاب کے اوقات کے تعین میں اس علم پر اعتماد کرتے ہیں، ہمیں چاند کی ولادت و عدمِ ولادت اور اس کے امکانِ ظہور و عدمِ امکانِ ظہور میں بھی اس کی معلومات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بنابریں مسلمہ درایتی قواعد کی رو سے جس دن غروبِ آفتاب سے پہلے چاند کی وِلادت نہ ہوگئی ہو۔ یا چاند اس دن سورج غروب ہونے سے پہلے غروب ہوچکا ہو تو اس دن یقینا چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ لیکن اس دن اگر کچھ لوگ دعویٰ کریں کہ انھوں نے چاند دیکھا ہے تو ان کا یہ دعویٰ سخت محل نظر ہوگا کیونکہ یہ دعویٰ ایسا ہی ہوگا جیسے سورج غروب ہوچکا ہو لیکن دعویٰ کرنے والے دعویٰ کریں کہ ابھی غروب نہیں ہوا۔ یاسورج نکل چکاہو، لیکن دعویٰ کرنے والے دعویٰ کریں کہ سورج ابھی نہیں نکلا۔ ایسی صورت میں یقینًا رؤیتِ ہلال کا دعویٰ کرنے والوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ اور شہادت کے شرعی تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے، چاہے اس کی روشنی میں پہلا فیصلہ غلط قرار پائے، اس کی مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔