کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 130
صاحب ہدایہ اپنی کتاب ’’مختارات النوازل‘‘ میں ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں: ’أَہْلُ بَلْدَۃٍ صَامُوا تِسْعَۃً وَّعِشْرِینَ یَوْمًا بِالرُّؤْیَۃِ وَ أَہْلُ بَلْدَۃٍ أُخْرٰی صَامُوا ثَلَاثِینَ بِالرُّؤْیَۃِ فَعَلَی الْأَوَّلَیْنِ قَضَائُ یَوْمٍ إِذَا لَمْ یَخْتَلِفِ الْمَطَالِعُ بَیْنَہُمَا وَ أَمَّا إِذَا اخْتَلَفَتْ لَا یَجِبُ الْقَضَائُ‘ ’’ایک شہر والوں نے رؤیتِ ہلال کے بعد29 روزے رکھے اور دوسرے شہر والوں نے چاند دیکھنے ہی کی بنا پر 30 روزے رکھے تو اگر ان شہروں میں مطلع کا اختلاف نہ ہو تو 29 روزے رکھنے والوں کو ایک دن کی قضا کرنی ہوگی۔ اور اگر دونوں شہروں کا مطلع جداگانہ ہو تو قضا کی ضرورت نہیں۔‘‘ محدث علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے کنزالدقائق کی شرح ’’تبیین الحقائق‘‘ میں اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے۔ انھوں نے اختلافِ مطالع کی بحث میں فقہاء احناف کا اختلاف نقل کرنے کے بعد خودجو فیصلہ کیا ہے، وہ یہ ہے: ’اَلْأَشْبَہُ أَنْ یُعْتَبَرَ لِأَنَّ کُلَّ قَوْمٍ مُخَاطَبُونَ بِمَا عِنْدَہُمْ وَانْفِصَالُ الْہِلَالِ عَنْ شُعَاعِ الشَّمْسِ یَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ کَمَا فِي دُخُولِ وَقْتِ الصَّلَاۃِ وَخُرُوجِہِ یَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَقْطَارِ‘ ’’زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اختلافِ مطالع معتبر ہے، اس لیے کہ ہر جماعت اسی کی مخاطب ہوتی ہے جو اُس کو در پیش ہو اور چاند کا سورج کی کرنوں سے خالی ہونا مطالع کے اختلاف سے مختلف ہوتا رہتا ہے، جیسے نمازوں کے ابتدائی اور انتہائی اوقات علاقائی اختلاف کی بنا پر مختلف ہوتے رہتے ہیں۔‘‘