کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 129
کے حق میں مغرب کا سبب متحقق نہیں ہوا ہے۔‘‘ نیز اسی کے حاشیہ پر علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’وَہُوَ الْأَشْبَہُ لِأَنَّ انْفِصَالَ الْہِلَالِ مِنْ شُعَاعِ الشَّمْسِ یَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَقْطَارِ کَمَا فِي دُخُولِ الْوَقْتِ وَ خُرُوجِہِ، وَہٰذَا مُثْبِتٌ فِي عِلْمِ الْأَفْلَاکِ وَالْھَیْئَاۃِ وَأَقَلُّ مَااخْتَلَفَ الْمَطَالِعُ مَسِیرَۃُ شَہْرٍ کَمَا فِي الْجَوَاہِرِ‘ ’’یہی رائے زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ چاند کا سورج کی کرنوں سے خالی ہونا علاقوں کے بدلنے سے بدلتا رہتا ہے جیسا کہ اوقات (نماز) کی آمدورفت میں۔ اور یہ فلکیات اور علم ہئیت کے مطابق ایک ثابت شدہ حقیقت ہے، نیز کم سے کم جس سے اختلافِ مطالع واقع ہوتا ہے، وہ ایک ماہ کی مسافت ہے جیسا کہ ’’جواہر‘‘ نامی کتاب میں ہے۔‘‘ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: ’أَہْلُ بَلْدَۃٍ إِذَا رَأَوُا الْْہِلَالَ ہَلْ یَلْزَمُ فِي حَقِّ کُلِّ بَلْدَۃٍ؟ اُخْتُلِفَ فِیہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ لَا یَلْزَمُ… وَ فِي الْقُدُورِيِّ إِنْ کَانَ بَیْنَ الْبَلْدَتَیْنِ تَفاوُتٌ لَا یَخْتَلِفُ بِہِ الْمَطَالِعُ، یَلْزَمُہُ‘ ’’ایک شہر والے جب چاند دیکھ لیں تو کیا تمام شہر والوں کے حق میں رؤیت لازم ہوجائے گی؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کی رائے ہے: لازم نہیں ہوگی… اور قدوری میں ہے کہ اگر دو شہروں کے درمیان ایسا تفاوت ہو کہ مطلع تبدیل نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں رؤیت لازم ہوگی۔‘‘