کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 128
ہوچکا ہے یا اگر ایک جگہ مہینہ کا 28 واں ہی دن ہے اوردوسری جگہ 29 واں، جہاں چاند نظر آگیا تو محض اس بنا پر 28 ویں تاریخ ہی پر مہینہ کرکے اگلے دن رمضان یا عید نہیں کی جائے گی کہ دوسری جگہ چاند نظر آگیا ہے۔ اس لیے یہ بات فطری اور انتہائی منطقی ہے کہ مطلع کے اختلاف کا اور اسی لحاظ سے رمضان اور عید کا اختلاف تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ فقہائے متقدمین کے دور میں اول تو معلوم کائنات کی یہ وسعت دریافت ہی نہ ہوئی تھی اور ممالک ہی نہیں کئی براعظموں سے دنیا بے خبر اور نا آشنا تھی، پھر اس میں بھی مسلمان جزیرۃ العرب اور خلیجی علاقوں میں محدود تھے، اس وقت تک شاید یہ بات ممکن رہی ہو اور ان کے مطلع میں اتنا فرق نہ رہا ہو کہ اس کو الگ الگ سمجھا جائے، اس لیے فقہاء نے ایسا کہا ہے، چنانچہ خود فقہائے احناف میں بھی مختلف محققین نے اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا ہے۔ حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤی فرنگی محل نے اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور مختلف فقہاء کی عبارتیں نقل کی ہیں جو یہاں ذکر کی جاتی ہیں، مشہور کتاب ’’مراقی الفلاح‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں: ’وَ قِیلَ یَخْتَلِفُ ثُبُوتُہُ، بِاخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ وَاخْتَارَہٗ صَاحِبُ التَّجْرِیدِ کَمَا إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ عِنْدَ قَوْمٍ وَ غَرَبَتْ عِنْدَ غَیْرِہِمْ فَالظُّہْرُ عَلَی الْأَوَّلَیْنِ لَا الْمَغْرِبُ لِعَدْمِ انْعِقَادِ السَّبَبِ فِي حَقِّہِمْ‘ ’’بعض حضرات کی رائے ہے کہ اختلافِ مطالع کی وجہ سے رؤیتِ ہلال کے ثبوت میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے۔ تجرید القدوری کے مصنف نے اسی کو ترجیح دی ہے جیسا کہ جب کچھ لوگوں کے یہاں آفتاب ڈھل جائے اور دوسروں کے یہاں غروب ہوجائے تو پہلے لوگوں پر ظہر ہے نہ کہ مغرب اس لیے کہ ان