کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 123
دن عید منائیں اورایک ہی دن روزے رکھیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ حکم دیا گیا ہے: ’صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ‘ ’’چاند دیکھ کر روزے رکھو (رمضان کا آغاز کرو) اور چاند دیکھ کر افطار (روزہ رکھنا ترک اور عید) کرو۔‘‘ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب تک ہر ملک میں اس کے حساب سے رؤیتِ ہلال کا اثبات نہ ہوجائے، نہ رمضان کا آغاز کرنا صحیح ہے اور نہ روزے ختم کرکے عید کا اہتمام کرنا مناسب ہے۔بلکہ بعض صورتوں میں ایک ہی ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی رمضان اور عید کا الگ الگ اہتمام ہو سکتا ہے، بشرطیکہ رؤیت کے شرعی تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہو۔ اس کی کچھ مزید تفصیل آگے آئے گی۔ جیسے ہر ملک اور علاقے میں جب تک صبح صادق نہ ہوجائے، فجر کی نماز نہیں پڑھی جاسکتی اور جب تک سورج غروب نہ ہوجائے مغرب کی نماز نہیں پڑھی جاسکتی، اسی طرح رؤیتِ ہلال کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ بھی طلوع و غروب شمس کی طرح اختلافِ مطالع کے اعتبار سے مختلف ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، اس میں نہ یکسانیت و وحدت پیدا کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا ہمیں کوئی حکم ہی دیا گیا ہے۔ چودہ صدیوں سے عالم اسلام میں اپنے اپنے حساب سے عیدین اور رمضان کا اہتمام ہوتا چلا آرہا ہے، اسے کبھی بھی وحدت ویک جہتی کے منافی نہیں سمجھا گیا۔ اب ایسا کرنا کیوں کر وحدت کے منافی ہوجائے گا؟ بعض جلیل القدر علمائے احناف نے تو صرف پاکستان کی حد تک بھی ایک ہی دن عید منانے کو شرعی لحاظ سے غیر ضروری قرار دیا ہے… چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’اگرچہ شرعی حیثیت سے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ پورے ملک میں عید ایک ہی دن ہو۔ اسلام کے قرونِ اُولیٰ میں اس وقت کے موجودہ ذرائع مواصلات