کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 121
صحیح مسلم کی احادیث کی تبویب کرتے ہوئے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے پر باب کا جو عنوان دیا ہے، اس کا ترجمہ ہی یہ ہے: ’’اس بات کا بیان کہ ہر علاقے کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے، نیز یہ کہ جب کسی علاقے کے لوگ چاند دیکھ لیں تو رؤیت ان لوگوں کے حق میں ثابت نہیں ہوگی جو اُن سے دور ہوں گے۔‘‘ پھر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: ’وَ إِنَّمَا رَدَّہُ لِأَنَّ الرُّؤْیَۃَ لَا یَثْبُتُ حُکْمُہَا فِي حَقِّ الْبَعِیدِ‘ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت کریب رحمۃ اللہ علیہ کی رؤیت کو اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ رؤیت کا حکم دوروالے لوگوں کے حق میں ثابت نہیں ہوتا۔‘‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ واقعہ اپنی جامع ترمذی کے ابوابُ الصوم میں نقل کیا ہے اور انھوں نے بھی اس پر یہ عنوان قائم کیا ہے: ’باب ماجاء لکل أہل بلد رؤیتہم‘ ’’اس بات کا بیان کہ ہر علاقے کے لوگوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے۔‘‘ بہر حال اس میں واضح طور پر موجود ہے کہ صحابیٔ رسول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مدینے والوں کے لیے شام کی رؤیت کا اعتبار نہیں کیا، جس سے اسی موقف کا اثبات ہوتا ہے کہ پورے عالم اسلام کے لیے کسی ایک ہی علاقے کی رؤیت کافی نہیں ہے۔ اور احادیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’لَا تَصُومُوا حَتّٰی تَرَوُا الْہِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتّٰی تَرَوْہُ، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوا لَہُ‘ ’’اور اس وقت تک روزہ نہ رکھو، جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اس وقت تک