کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 119
واقعاتی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مطالع کا بعد اور اختلاف اس قدر یقینی ہے کہ اس کااعتبار کیے بغیر کوئی چارئہ کار نہیں، اس لیے شرعی دلائل کی رُو سے ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہوں کے لیے معتبر نہیں ہے بلکہ ہر علاقے کی رؤیت صرف اسی علاقے کے لوگوں کے لیے معتبر ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ) ’’جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو، اسے چاہیے کہ وہ اس کے(پورے) روزے رکھے۔‘‘[1] اور اس مہینے کے روزے اسی پر فرض ہوں گے جو رمضان المبارک کا چاند دیکھے گا، رؤیت ہلال کے بغیر رمضان کا اس کی موجودگی میں تحقُّق ہی نہیں ہوگا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے: ’صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ، فَإِنْ غُمِّيَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلَاثِینَ‘ ’’تم چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھو (رمضان کا آغاز کرو) اور چاند دیکھ کر ہی روزہ افطار (روزہ رکھنا ترک اور عید) کرو، اگر تم پر بادل چھا جائیں (اور اس کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو۔‘‘[2] اگر مثلاً: اہل مکہ یا اہل مصر چاند دیکھ لیں لیکن دوسرے علاقے کے لوگ اسے نہ دیکھ سکیں تو اہل مکہ یا اہل مصر کے لیے تو رؤیت ثابت ہوگئی اور وہ اس کی بنیاد پر رمضان کے آغاز یا اختتام کا فیصلہ کریں گے لیکن دوسرے علاقے کے لوگ کس طرح
[1] البقرۃ 185:2۔ [2] صحیح البخاري، الصوم، باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم : ’إذا رأیتم الہلال فصوموا…‘، حدیث : 1909۔