کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 112
میں سرایت کر گئی ہیں کہ ہمارے جسم و خون کا وہ ’’اٹوٹ انگ‘‘ بن گئی ہیں۔ تاہم یہ برائیاں بجائے خود سخت مضر اور تباہ کن ہوتے ہوئے بھی اس لحاظ سے ضرور ’’کمتر‘‘ ہیں کہ ان برائیوں کو برائیاں ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے انھیں حسن و خوبی نہیں کہا جاتا۔ لیکن ہماری بد اعمالیوں کی ایک قسم وہ ہے جو کسی بھی بڑے سے بڑے گناہ سے کم نہیں لیکن ان پر قبوری شریعت کے رمز شناسوں نے ’’مذہب و شریعت‘‘ کا لیبل لگا کر اس نص قرآنی کو یکسر بھلا دیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: (فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ﴿٧٩﴾) ’’ان لوگوں کے لیے ہلاکت و بربادی ہے جو ایک چیز اپنے ہاتھ سے لکھ کر اسے حکمِ آسمانی باور کراتے ہیں تاکہ اس طرح قلیل معاوضہ حاصل کریں، چنانچہ ایسے لوگوں کے لیے تباہی و بربادی ہے اس پر بھی جو انھوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور اس پر بھی جو اس طرح انھوں نے کمایا۔‘‘[1] ایسے اعمال و افعال جن کا کوئی شرعی ثبوت نہیں اور وہ اجرو ثواب کی نیت سے اور دین ہی کا حصہ سمجھ کر کیے جائیں، بدعات و محدثات کہلاتے ہیں، جو بد ترین امور، سراسر گمراہی مردود اورمفضی الی النار ہیں۔ بنا بریں یہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان جو صراط مستقیم اور دین صحیح پر چلنے کا اور سعادت ابدی کا مستحق بننے کا خواہش مند ہے ، وہ معاشرے میں رائج بدعات سے بھی آگاہی حاصل کرے تاکہ وہ ان سے بچ سکے اور ان کی خطرناکی و تباہی سے دوسروں کو بھی
[1] البقرۃ 79:2۔