کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 110
’’اس کے حسن کے باوجود حضرت عمر کا اس کا نام بدعت رکھنا، لغوی طور پر ہے نہ کہ شرعی معنی کے طور پر ، اس لیے کہ لغت میں بدعت کا لفظ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کو بغیر سابق مثال کے کیا گیا ہو ۔ اور بدعت شرعیہ ہر وہ عمل ہے جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔‘‘[1] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’بدعت کی دو قسمیں ہیں: ایک بدعت شرعیہ، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌاور دوسری بدعت لغویہ ، جیسے امیر المؤ منین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا تراویح کی نماز کے مستقل طور پر باجماعت اہتمام کرنے کو نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہٖکہنا۔‘‘ [2] حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’أَمَّا مَا وَقَعَ فِي کَلَامِ السَّلَفِ مِنَ اسْتِحْسَانِ بَعْضِ الْبِدَعِ، فَإِنَّمَا ذٰلِکَ فِي الْبِدَعِ اللُّغَوِیَّۃِ لَا الشَّرْعِیَّۃِ، فَمِنْ ذٰلِکَ قَوْلُ عُمَرَ رضی اللّٰهُ عنہ لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ فِي قِیَامِ رَمَضَانَ عَلٰی إِمَامٍ وَاحِدٍ فِي الْمَسْجِدِ وَخَرَجَ وَرَآھُمْ یُصَلُّونَ کَذٰلِکَ فَقَالَ: نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہٖ، وَمُرَادُہٗ: أَنَّ ہٰذَا الْفِعْلَ لَمْ یَکُنْ عَلٰی ہٰذَا الْوَجْہِ قَبْلَ ہٰذَا الْوَقْتِ، وَلٰکِنْ لَہٗ أَصْلٌ مِنَ الشَّرِ یعَۃِ یُرْجَعُ إِلَیْہَا‘ ’’سلف کے کلام میں بعض بدعتوں کے لیے جو استحسان کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہ صرف بدعت لغوی کے لیے استعمال ہوا ہے نہ کہ بدعت شرعی کے لیے۔ اسی قبیل سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے جوکہ انھوں نے اس وقت
[1] اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم، ص:308، بتحقیق خالد عبداللطیف، طبع: 1996ء ۔ [2] تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ البقرۃ، آیت: 117 کے تحت۔