کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 109
اس سے ایک تو یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود باجماعت تراویح ادا فرمائی۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ اس عمل کو جاری رکھنا چاہتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد فرضیت کا خطرہ ختم ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور عمل کے مطابق قیام رمضان کا باجماعت اہتمام فرمادیا۔ جب صورت حال یہ ہے کہ یہ مشروع عمل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ’’ اچھی بدعت‘‘ کیوں کہا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعت کا لفظ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی بھی ہیں اور شرعی معنی بھی… لغت کے اعتبار سے ہر اچھی چیز کو ، جو نادر المثل ہو ، بدعت کہہ لیا جاتا ہے ۔ تراویح کا یہ عمل اگرچہ بالکل نادر المثال تو نہیں تھا لیکن حضرت عمر نے اس لمبے وقفے کی وجہ سے، جس میں یہ عمل مفقود رہا، یعنی جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی موقوف رہی، اس کو اپنی زبان میں نعمت البدعۃ سے تعبیر فرمادیا ۔ ظاہر بات ہے کہ یہاں یہ لفظ شرعی معنی میں نہیں ہے نہ ہو ہی سکتا ہے کیونکہ یہ سنت حسنہ ہے (جیسا کہ وضاحت گزری) سنت حسنہ کو بدعتِ حسنہ کس طرح قرار دیا جا سکتاہے؟ بنا بریں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شرعی معنی میں ہے نہ ہو ہی سکتا ہے ، اس لیے کہ یہ نو ایجاد عمل نہیں ہے بلکہ شریعت میں اس کی اصل موجود ہے، چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’أَکْثَرُ مَافِي ہٰذَا تَسْمِیَۃُ عُمَرَ تِلْکَ بِدْعَۃٌ مَعَ حُسْنِہَا، وَہٰذِہٖ تَسْمِیَۃٌ لُغَوِیَّۃٌ لاَ تَسْمِیَۃٌ شَرْعِیَّۃٌ، وَذٰلِکَ أَنَّ الْبِدْعَۃَ فِي اللُّغَۃِ تَعُمُّ کُلَّ مَا فُعِلَ ابْتِدَائً مِنْ غَیْرِ مِثَالٍ سَابِقٍ، وَأَمَّا الْبِدْعَۃُ الشَّرْعِیَّۃُ: فِعْلُ مَالَمْ یَدُلَّ عَلَیْہِ دَلِیلٌ شَرْعِيٌّ‘