کتاب: مسئلہ رؤیتِ ہلال اور 12 اسلامی مہینے - صفحہ 104
بھی صدقہ کرنے لگے ۔ آپ کے اس فرمان سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ اسلام میں نئی نئی باتیں ایجاد کرنے کی اجازت دے رہے ہیں ۔ ثانیاً: ایک اور حدیث میں آتا ہے جس میں آپ نے فرمایا: ’مَنْ دَعَا إِلٰی ہُدًی، کَانَ لَہٗ مِنَ الأَْجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَہٗ، لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَۃٍ، کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الإِْثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہٗ، لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْئًا‘ ’’ جس نے کسی کو ہدایت کی طرف بلایا تو اس کو ان لوگوں کی مثل اجر ملے گا جو اس ہدایت کے راستے کو اختیار کریں گے، ان میں سے کسی کے اجر میں یہ امر کمی نہیں کرے گا اور جس نے کسی کو گمراہی کی طرف بلایا تو اس پر ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا جو اس برائی کو اختیار کرنے والے ہوں گے، یہ امر ان میں سے کسی کے گناہوں میں کمی نہیں کرے گا۔‘‘ [1] یہ حدیث ’مَنْ سَنَّ فِي الإِْسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً وَمَنْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّئَۃً‘کے ہم معنی ہے ۔ان دونوں کو سامنے رکھ کر ان کا مفہوم و مطلب متعین کیا جائے گا، اسی لیے ان کو ایک ہی باب میں ذکر کیا گیا ہے اور باب کا پورا عنوان ہے: ’بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً أَوْ سَیِّئَۃً وَمَنْ دَعَا إِلٰی ھُدًی أَوْ ضَلَالَۃٍ‘ ’’ اس کا بیان جس نے کوئی اچھا یا برا طریقہ نکالا اور اس کا جس نے ہدایت یا گمراہی کی طرف بلایا ۔‘‘ اس باب سے اور اس میں دونوں حدیثیں ذکر کرکے امام صاحب نے یہ مفہوم سمجھا دیا کہ سنت حسنہ نکالنے سے مراد ہدایت کی طرف بلانا ہے اور سنت سیئہ نکالنے کا
[1] صحیح مسلم، العلم، باب مَن سَنَّ…، حدیث: 2674۔