کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 56
عظام کی تابوت اور تابوت کی عظام سے تعبیر میں استبعاد نہیں ایسے مقام پر عظام سے جسم مراد لینا متعارف ہے۔ قرآن حکیم نے منکرین حشرکا عقیدہ ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ )بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندگی عطا کرے گا) معلوم ہے کہ کفار حشر اجساد کے منکر تھے حشر عظام پر استعجاب اسی حقیقت کی تعبیر ہے مقصود یہی ہے من یحیی الاجسام النالیہ حدیث من فلحتمل عظامہ سے مراد احتمل جسمہ ہی ہونا چاہیئے اس مفہوم کے بعد احادیث میں تعارض اُٹھ جاتا ہے میری دانست میں وہی مسلک صحیح ہے جسے ائمہ سنت وحدیث نے قبول فرمایا ہے۔
۷۔ ابن خلدون کا حوالہ اور بھی محل نظر ہے کیونکہ مصر سے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی نعش مبارک حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ہمراہ لائے بنی اسرائیل چالیس سال تک بادیہ تیہ میں اقامت پزیر رہے کوشش اور انتہائی آرزو کے باوجود بنی اسرائیل کسی ہمسایہ ملک پر حملہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال اسی اثناء میں ہوا اس کے بعد بنی اسرائیل کی قیادت یوشع بن نون کے سپردہوئی حضرت یوشع نے ریحا اور نابلس کے علاقے فتح ہوئے خیال ہے کہ اس اثناء میں برسوں گزر گئے ہوں گے ابن خلدون نے بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے
واخر بوا معھم تابوت یوسف علیہ السلام (ص۱۲۳ جلد۱) تابوت اور شلوا ابن خلدون نے دونوں استعمال کیے ہیں مسعودی نے ایک روایت میں تابوت کی شکل بھی بتائی ہے(ص۴۷ جلد۱(قبض اللہ یوسف بمصر ولہ مائۃ وعشرون سنۃ وجعل فی تابوت المرخام وسد بالرصاص وطی باالاخیۃ النافعۃ للھواء والماء۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے سفید پتھر کا تابوت بنایا گیا اور ہوا اور پانی کی بندش پورا انتظام کیا گیا۔
معلوم نہیں اس وقفہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی عظام یاتابوت کو وادی "تیہ" دفن کیا گیا اور دوبارہ نکال حسب وصیت نایلس میں دفن کیا گیا تفصیلات کیلئے تاریخ خاموش ہے اور جو مواد ملتا ہے وہ قریباً اسرائیلی روایات ہیں جن کی بنا پر ترجیح دینا مشکل ہے ہے جمہور امت