کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 55
نہیں کیا جاسکتا ۔ اصول ستہ کو بحیثیت مجموعی طبرانی وغیرہ پر برتری حاصل ہے چوتھے درجہ کی کتابوں سے استدلال فحول ائمہ حدیث تنقید اور تحقیق کے بعد کرتے ہیں یا پھر اہل بدعت جن کے ہاں اصل چیز اپنی بدعت کی تائید ہے دلائل کی پختگی سے انہیں کوئی واسطہ نہیں (حجۃ اللہ( ۲۔ حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں صرف زوائد جمع کرنے کا ذمہ لیا ہے تا کہ ایک مواد اہل علم کے سامنے آجائے وہ ان زیادات پر بالا استیعاب کلام نہیں فرماتے اور نہ ہی جرح وہ قدح کی تفصیلات ہی میں جاتے ہیں۔
۳۔ ابویعلی کی روایت میں انہوں نے فرمایا ہے رجالہ رجال الصحیح اس سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ضد کے رجال پر اصحاب الصحیح نے اعتماد فرمایا ہے لیکن حدیث کی صحت کے لیے یہ کافی نہیں امام مسلم نے شواہد میں ایسے رجال سے روایت کی ہے جن میں ائمہ حدیث کو کلام ہے اس کا تذکرہ انہوں نے مقدمہ مسلم میں بھی فرمایا ہے۔
۴۔ پھر ثقاہت رجال کے علاوہ تصحیح حدیث کے لیے اور بھی شروط ہیں مراسیل اور مقطوعات میں ثقاہت رجال کے باوجود حدیث کی صحت کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔ راوی اور روایت کی شرائط کو پیش نظر رکھنا چاہیئے۔
۵۔ طبرانی کی روایت کے متعلق حافظ ہثیمی فرماتے ہیں ۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ من لم اعرفھم غیر معروف رجال سے جوروایت مروی ہے اس کی صحت کادعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس قسم کی ضعیف روایات کے بالمقابل تو ابن ماجہ کی روایت ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء کو ضعف کے باوجود جمہور امت نے قبول فرمایا ہے اس لیے اسے طبرانی اور ابو یعلی کی ضعیف روایات پر ترجیح ہوگی لتلقی لامۃ مفھوم مھا بالقبول قرآئن کا تقاضایہی ہے کہ ابن ماجہ کی روایت کو ترجیح دی جائے او ر برزخی زندگی کے ساتھ جسم کی سلامتی کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔
۶۔ پھر ابن ماجہ کی روایت کو علی علاتہا تسلیم کر لینے سے تعارض بھی اُٹھ سکتا ہے ۔ ابویعلی اور طبرانی کی روایت میں عظام سے مقصد حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ السلام کی نعش مبارک مراد ہو جیسے کہ البدایہ والنہایہ جلد ۱ ص۲۷۵
میں اخرجوامعھم تابوتہ مرقوم ہے