کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 45
ذرا غور کرلیا ہوتا کہ امر کی تفصیلات میں جانا اس کے غیر متناہی شعب کا تذکرہ ہوتا تو قرآن اسے ضرور بیان فرما دیتا مولوی اخلاق حسین صاحب نے ص۱۷ پر زادالمعاد سے ایک اقتباس نقل فرمایا ہے اس کا اور مولانا کے اقتباس کا موازنہ فرمایئے ۔ حافظ رحمہ اللہ کا ارشاد کس قدر اقرب الی السنۃ ہے اور احادیث میں تطبیق کے لیے کس قدر موزوں اور مناسب، مولانا قاسم کی منطق ملاحظہ فرمایئے وہ قطعی بے جان ہے الفاظ کی شعبدہ بازی سے زیادہ اس میں کچھ نہیں اور حدیث یرد اللہ علی روحی کے سامنے رکھا جائے تو پوری تقریر کی حیثیت ہوائی سی ہوجاتی ہے اور حدیث کے الفاظ سے بالکل الگ اور مختلف ہے۔
بریلوی علم کلام:
ہم نے بریلوی علم کے تین اصول سمجھے ہیں۔
اول۔ مخالف کوپیٹ بھر کے گالیاں دینا ۔
دوم۔ جہاں تک ممکن ہو اس پر جھوٹی تہمتیں تراشے جانا تاکہ بچارا الزامات کا جواب دیتے ہی تھک جائے۔
سوم۔ جس بدعت کی ترویج مقصود ہو اس کے ساتھ"شریف" کے لفظ کا اضافہ ، گیارہویں شریف ، میلاد شریف چہلم شریف جوبستی بدعت اور شرک کا مرکز ہو اس کےساتھ"شریف" لگادو ،جتنا بڑا پاپی اور مہامشرک ہو اس کے نام کے ساتھ جھوٹے خطابات کا ایک طویل سلسلہ ضم کردو عوام حق سے نفرت کرنے لگیں گے بدعۃ اور اہل بدعت کو پسند کرنے لگیں گے۔
اخوان دیوبند
حضرات دیوبند یہی دوبیماریوں سے قریباً محفوظ ہیں گالیاں نہیں دیتے جھوٹ نہیں بولتے لیکن اکابر کے محاسن میں غلط مبالغہ اور بے ضرورت غلو، اساتذہ کی تقدیس بانداز عظمت یہاں بھی موجود ہے اور بدرجہ اتم آپ نے مولانا قاسمؒ کا اقتباس پڑھ لیا اور اب مبالغہ آمیزی ملاحظہ فرمایئے۔
آب حیات وہ کتاب ہے کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے فرمایا میں نے یہ کتاب استاد رحمہ اللہ علیہ سے درساً درساً پڑھی تب مصنف کے مدارک پر مطلع ہوا ہوں میں نے مولانا حبیب الرحمان صاحب رحمہ اللہ علیہ سے اس واقعہ کا حوالہ دے کر عرض کیا تھا مجھے یہ کتاب آپ پڑھا دیں تو انہوں نے بایں ذہن وذکا فرمایا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں تو ایسی کتاب ہم جیسے نالائقوں کے بس کی بات کیا ہوسکتی ہے۔