کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 39
وھو حدیث منکر لااعلم احدًا رواہ غیر حسین الجعفی) )علل حدیث لا بن ابی حاتم ،ص۱۹۷ جلد ۱( ان ائمہ کے علاوہ علامہ ابوبکر ابن العربی المالکی فرماتے ہیں ان الحدیث لم یثبت )نیل ،ص۳۰۴، جلد ۳
اسی مضمون کی دوسری حدیث سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ارواء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں فنبیُّ اللہ حی یرزق کی زیادتی مرقوم ہے(ص ۱۱۹ کتاب الجنائز) شوکانی رحمہ اللہ نے غالباً اس کو پسند جید لکھا اور صاحب ینقح الرواۃ نے بھی ان کی متابعت میں اس کو سند جید فرمایا ہے مگر یہ درست نہیں حافظ سخاوی لکھتے ہیں رجالہ ثقات لکنہ منقطع )القول البدیع ص۱۱۹(
تعلیق سندھی حنفی علی ابن ماجہ(ص۵۰۳، جلد ۱) میں ہے۔
منقطع فی موضعین لان عبارۃ روایۃ عن ابی الدرداء مرسلۃ وزید بن الیمن عن عبارۃ مرسلۃ قالہ البخاری۱ھ
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔
قال البخاری زید بن الیمن عن عبارہ مرسل ۱ھ(تہذیب ص۳۹۸ جلد ۳)
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ارشاد التاریخ الکبیر ص۳۵۴ جلد ۲ قسم اول طبع حیدر آباد میں ہے حضرت ابوالدردا کی حدیث بروایت ابن ماجہ فنبی اللہ حی یرزق زائد ہیں حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ مدرج ہیں ۔ مجدبن تیمیہ نے منتقی میں اس کا ذکر نہیں فرمایا شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اشعۃ اللمعات میں اندراج کو بطور شبہ قبول فرمایا ہے (جلد۱،ص۵۰۹)خان صاحب بریلوی نے بھی اس زیادتی کو مدرج تسلیم کیا ہے(حاشیہ حیات الموات ص۱۷۸) خود ابن ماجہ میں یہ حدیث اوس بن اوس اور شداد بن اوس سے مروی ہے اس میں یہ زیادتی نہیں اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس کی سند کو جید کہنا تسامح سے خالی نہیں۔

برتقدیم تسلیم یہ احادیث صحیح بھی ہوں تو ان سے دنیوی زندگی ثابت نہیں ہوتی لیکن میں نے کسی قدر تفصیلی تذکرہ اس لیے ضروری سمجھا تاکہ ان احادیث کی حقیقت معلوم ہو جائے جنہیں حضرات اجلہ دیوبند دبی ذبان سے متواتر فرما دیتے ہیں اور مدارج النبوۃ اور حافظ سیوطیؒ کی تصنیفات پر اس قدر اعتماد کیا جاتا ہے جو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے متوسلین سے انتہائی